ووٹ ڈالنے کی نوبت ہی نہ آئے

ملک میں جمہوریت کا جو نام نہاد طریقہ کار رائج ہے، اس سے حکمران طبقات بھی خوفزدہ ہیں ، یہ کوئی نظام بدلنے نہیں جا رہے ہیں، یہ اس نظام (سرمایہ داری) میں رہتے ہوئے چہروں کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ یہ تبدیلی 75 برس سے عوام دیکھتے آ رہے ہیں۔ عوام کی قسمت تو بدلی نہیں ہاں مگر سرمایہ داروں کی قسمت بدلتی جا رہی ہے۔

ادھر پی ٹی آئی نے 27 مارچ کو 10 لاکھ افراد کے جلسے کا اعلان کیا ہے، دوسری جانب اپوزیشن کا لانگ مارچ بھی اسلام آباد پہنچ رہا ہے ۔ پی ٹی آئی کے رہنما فیصل واؤڈا نے کہا ہے کہ اپوزیشن 182 ووٹ بھی لے لے ، تو بھی وزیر اعظم کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ منصوبہ آشکار ہوتا ہے کہ حزب اختلاف مارچ کرے گی تو انھیں تشدد کے الزام میں گرفتار کیا جائے گا ، جب حزب اختلاف کہہ رہی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا تو حکومت کے لیے ایک جواز مل جائے گا۔

ایم کیو ایم اور پی پی پی اور (ق) لیگ کی قیادتوں سے ملاقات کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ ایم کیو ایم کے تمام مطالبات مان لیے گئے۔ ادھر تحریک انصاف کا بڑا ناراض گروپ علیم خان کو پرویز الٰہی کے مقابلے پر لانا چاہتا ہے۔ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ہمارے پاس حکومت ہے، طاقت اور مستقبل بھی۔ ان تمام جواب در جواب اور اعلانات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ ہم جیت رہے ہیں ، چونکہ حکومت نہیں جیت رہی ہے اس لیے وہ مختلف راستے اپنا رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے بابر اعوان کہتے ہیں ہم آئین اور قانون کا راستہ اختیارکریں گے جو لوگ پی ٹی آئی کے کارکن ہونے کے باوجود ہمیں ووٹ نہیں دیں گے ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے ، پارلیمنٹ میں جائیں گے اور عدالتوں سے رجوع کریں گے۔ ان تمام بیانات اور حرکات سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد سے گھبرائی ہوئی ہے اور ووٹنگ کے راستے کے بجائے تشدد، گرفتاریاں اور غیر آئینی راستے کو اپنایا ہوا ہے اور انھی راہوں پر چلنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

پی ٹی آئی تو 10 لاکھ کا جلسہ اس لیے کر رہی ہے کہ ووٹ ڈالنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جاسکے۔ حزب اختلاف لانگ مارچ اس لیے کر رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے جلسے کو عبورکرکے ووٹ ڈالیں۔ کیا چہروں کو بدلنے سے عوام کی تقدیر بدل جائے گی، ہرگز نہیں۔ اگر حزب اختلاف، مارچ، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف کرتی تو عوام کی ہمہ گیر حمایت حاصل ہوتی۔ ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود حزب اختلاف کی کسی بھی جماعت نے ایک دن کی بھی ملک گیر ہڑتال نہیں کی۔ انھیں شاید خوف اس بات کا ہے کہ کہیں عوام سڑکوں پر نہ آجائیں اور اپنے حقیقی مسائل کا مطالبہ کرنے لگیں۔

اخبارات اور چینلوں میں مسلسل یہ خبریں چھپ رہی ہیں اور نشر ہو رہی ہیں کہ فلاں وزیراعظم بنے گا ، فلاں صدر بنے گا۔ پھر خبر آ رہی ہے کہ وزیر اعظم کے لیے دو دھڑوں میں مقابلہ ہوگا۔ ہر ایک اپنے مطالبات کو سامنے رکھ رہا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ہم اگر اقتدار میں آئے تو آٹا سستا کریں گے، دالیں سستی کریں گے، ہم روزگار فراہم کرنے میں تعاون و مددگار بنیں گے۔

سب یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ ہر چیز عمران خان کے دور میں مہنگی ہوگئی ہے، عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے، مگر یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم اقتدار میں آ کرکیا کریں گے ، بلکہ ابھی سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ عمران خان آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کو ختم کرکے جانا چاہتے ہیں، انھیں چاہیے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کو جاری رکھیں۔ لیجیے ابھی سے ایسی باتیں ہو رہی ہیں، ابھی تو اقتدار میں آئے بھی نہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سینیٹ کے چیئرمین بننے، صدر اور وزیر اعظم بننے میں مالی اخراجات کی انتہا ہوگئی تھی اور اب بھی شعبہ مالیات عروج پر ہے۔ اس جوڑ توڑ میں جتنی رقوم خرچ ہوتی ہیں ان پیسوں سے مل، کارخانے قائم کرکے لاکھوں مزدوروں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔ حکومت جتنا اشتہارات پر خرچ کرتی ہے اگر ان اخراجات کو روکا جائے تو بھی دسیوں لاکھ عوام کو فیکٹریاں لگا کر روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔ سرکاری دورے ، ہوائی جہاز کا سفر اور سامان تعیش پر جتنا خرچ ہوتا ہے انھیں بے گھری ، بے روزگاری کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور مہنگائی میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔

اگر ان اصلاحات کا دعویٰ کریں اور اس پر عمل نہ کریں تو سارے زبانی جمع خرچ نقش برآب ہو کر رہ جائیں گے۔ جس طرح اس وقت مختلف سیاسی کارکنان مختلف انداز میں بیان بازی کر رہے ہیں۔ ان بیان بازیوں میں کچھ درست ہوتی ہیں اور کچھ غلط۔ عملی اقدام کی کوئی بات نہیں کرتا۔

گزشتہ دنوں سندھ کے صوبائی وزیر منظور وسان نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ نہ دس لاکھ کا جلسہ ہوگا اور نہ ووٹ ڈالے جائیں گے۔ بات تو درست لگتی ہے ، اگر خواب دیکھنے کے معاملے کو نکال دیا جائے اس قسم کے خواب پیر پگاڑا بھی دیکھتے تھے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ منظور وسان ان کے مرید ہیں یا نہیں۔ ہاں مگر جلسہ کبھی اعلان کے مطابق نہیں ہوتا۔ لاکھوں کے بجائے ہزاروں کا ہوتا ہے۔ جلسے کا مطلب 10 لاکھ جمع کرنا نہیں بلکہ ووٹ ڈالنے والوں کو نہ پہنچنے دینا ہے۔ اس سے دنگا فساد اور تشدد کا ماحول پیدا ہوگا۔ کچھ گرفتاریاں بھی ہوں گی۔ پھر جواب در جواب کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ آج