انسانوں کا رہن سہن جانوروں سے صرف اتنا الگ ہے کہ انسان سماجی شعور رکھتا ہے۔ کبھی بھی تن تنہا نہیں رہا اور نہ رہ کر اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے۔ ایک بچے کو چلنے میں ہی ایک سال لگ جاتا ہے پھر وہ تنہا کیسے بڑھ سکتا ہے؟
دور وحشت میں انسان کا سب سے بڑا مسئلہ خونخوار جانوروں سے اپنے آپ کو بچانا تھا۔ اسی تگ ودو میں اس نے آگ جلانا سیکھا اور اس کے ذریعے درندوں کو بھگانا بھی۔ اس کا سماج ایک ایسا سماج تھا جس میں کسی کی ملکیت نہیں ہوتی تھی۔
شکارکرنا، پھل توڑنا اور مچھلی پکڑنا اس کا کام تھا۔ قبیلے میں خواہ سیکڑوں کارکنان کیوں نہ ہوں اگر شکار کرنے والے صرف پانچ افراد بھی جاتے تھے تو شکار کرکے لاتے تھے اور وہ سب کو برابر بانٹ دیا جاتا تھا۔
کسی کو بھوکا نہیں چھوڑا جاتا تھا ، ان کے سماج میں سب سے برا کام کسی کی مدد نہ کرنا تھا ، جب کہ آج کے اس مہذب سماج میں سب سے برا کام کسی کی مدد کرنا ہے۔ اسی لیے دنیا کے 2000 امیروں کے پاس 138 کھرب ڈالر ہیں جب کہ ہر ماہ 18 لاکھ انسان اس دنیا میں بھوک سے مر جاتے ہیں۔
جب سارے وسائل یعنی جنگلات آبی وسائل اور جانور سب کی ملکیت تھی جو جب چاہے جس چیز کو حاصل کرے اور کھالے۔ہاں مگر اکثر اوقات غذا کے حصول میں کئی دنوں تک کوسوں مارے مارے پھرنا پڑتا تھا۔
زندگی کٹھن اور دشوار ضرور تھی لیکن دشمن، میرا، تیرا، حسد اور خودغرضی ان کے سماج میں جرم سمجھا جاتا تھا۔ سائنس نے ترقی تو بہت کرلی ہے لیکن اس کے سرمایہ داروں کے مفاد میں استعمال ہونے کی وجہ سے 99 فیصد لوگ ان سائنسی نعمتوں سے محروم ہیں۔ صرف پیدل چلنے والے اور موٹرسائیکل سوار ہر سال حادثات کے باعث 5 لاکھ کی تعداد میں مر جاتے ہیں۔ لالو بھی اسی قسم کے حادثے کا شکار ہوا تھا۔
شام ٹھیک 5 بجے گلی سے گزرتے ہوئے سیف نے کہا ’’لالو مر گیا۔‘‘ لالو کی ماں کے کل 4 بچے تھے۔ بڑے لاڈ پیار اور ناز نخروں سے ان کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ انتہائی غربت نامناسب حالات، تنگ دستی اور غذائی قلت سے اس کے تین بچے مر گئے تھے، ایک بیٹا لالو بچ گیا۔ ابھی تو سال بھر کا نہ ہو پایا تھا، بس کھیل کود اور کھانے میں ہی مگن تھا۔ ماں اور پڑوسیوں کے سوا اسے معلوم ہی کیا تھا۔ کبھی کبھی پڑوسی بچی کے ساتھ بھی کھیل لیتا تھا۔ اکثر بچوں کی جو جبلی عادت ہوتی ہے کہ اکھاڑ پچھاڑ اور مستیاں کرنا وغیرہ۔
کچھ لوگ تو اپنی غلطیوں، لاپرواہیوں اور شوخیوں کی وجہ سے بھی حادثات کا شکار ہوتے ہیں ، لیکن لالو تو بے کس، بے بس اور بے سہارا تھا جس کو بھی دیکھا یا جہاں سے کچھ آسرا ہوتا وہاں بھاگ کے مانگتا ضرور تھا۔ ہاں مگر یہ ضرور تھا کہ بعض لوگ اسے دیتے تھے اور بعض لوگ حقارت سے دھتکار دیتے تھے۔ محلے کی ایک بچی اسے اپنے ساتھ کبھی کبھی گھر لاتی اور کھلاتی، پھر کچھ دیر کے لیے اس کے ساتھ کھیل بھی لیتی۔ پھر لالو اپنے روزگار پر یا مانگ کر کھانے کے لیے نکل پڑتا تھا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ اس طرح کی دھتکاروں سے بھرمار لاکھوں بھکاری مانگتے ہوئے نظر آئیں گے۔ لوگ بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں۔
پہلے خاکروب پاکستان میں صرف عیسائی اور ہندو ہوتے تھے لیکن اب دیگر لوگ بھی خاکروبی کا کام کرتے ہیں۔ پہلے بھی عیسائی یا ہندو پشت در پشت خاکروبی نہیں کرتے تھے بلکہ تاریخی طور پر وقت، حالات اور ضرورتوں کے تقاضوں نے انھیں خاکروبی کے کاموں کی جانب متوجہ کیا۔
بے روزگاری میں جب اضافہ ہوا اور وہ بھی اس لیے کہ کارخانے لگنے کے بجائے سیلز اور سروسز کے شعبوں میں جب اضافہ ہوا تو بے روزگار اور نیم بے روزگاروں میں بھی اضافہ ہوا۔ پھر ہمت والا ڈاکا ڈالنے لگا، کم ہمت والا چوری کرنے لگا، مجبور ہو کر کوئی بھیک مانگنے لگا، کوئی مایوس ہو کر منشیات کا عادی ہو گیا تو کچھ لوگ زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کرنے لگے۔
مگر لالو ان سب سے بے نیاز، اسے تو صرف مانگنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا، کچھ لوگ کہتے تھے کہ بابا کچھ کرلے، تو کچھ کہتے تھے کہ ابھی تو بچہ ہے کیا کرے گا، ابھی اس کے کھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔
پھر گلی کے ایک صاحب اس بحث میں کود پڑے کہ کیوں نہیں؟ دیکھو تو چھوٹے چھوٹے پٹھان بچے کچرے کی کنڈیوں اور کوڑے میں سے کام کی چیزیں چن کر اپنا پیٹ تو پال لیتے ہیں۔ گلی کے ایک اور بڑے میاں کہنے لگے کہ لالو بھی تو کوئی خواہ مخوا بیٹھا نہیں رہتا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر میں سے تو وہ بھی کھانے کی چیزیں تلاش کر ہی لیتا ہے۔
دیکھا تھا نا اس دن دو پٹھان بچوں کو روٹی کا ایک پیکٹ مل گیا تھا جس پر دونوں جھپٹ پڑے اور اس چھینا جھپٹی میں روٹی کے کچھ چھوٹے ٹکڑے زمین پر آگرے اور لالو لپک لپک کر اٹھاتا اور کھا لیتا۔ پیٹ بھرنے پر پڑوسن کی بچی صفیہ سے کھیلنے لگتا۔ کھانا ملنے کے بعد کھیلتے وقت لالو کتنا خوش رہتا تھا۔ اس طرح کی زندگی گزارتے ہوئے ہمیں جکارتا، دلی، ممبئی، کلکتہ، ڈھاکا، کراچی، قاہرہ اور بے شمار شہروں اور دیہاتوں میں کروڑوں بچے کام کرتے ہوئے، کوڑا چنتے ہوئے، بھیک مانگتے ہوئے، چوری کرتے ہوئے اور فاقوں سے اکتا کر مرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
آخر ایسا کیوں؟ کیونکہ کچھ لوگوں کے پاس دنیا کی تمام تر عیاشیوں کی سہولیات موجود ہیں تو باقی 99 فیصد تمام تر ضرورت سے محروم ہیں۔ بے چارگی اور مفلسی کی وجہ سے روزانہ 75 ہزار انسان غذائی قلت، قحط، افلاس اور بھوک سے مر رہے ہیں۔ یہ تو لالو تھا ، سیف گلی سے گزر رہا تھا اور مرے ہوئے لالو کو بار بار گھور رہا تھا، تو ایک صاحب نے سیف کی آنکھوں میں آنسو کا قطرہ دیکھ کر کہا یہ کوئی انسان نہیں تھا کہ آپ کی آنکھ سے آنسو آجائے۔
سیف نے جواب میں کہا کہ بے شک یہ تو انسان نہیں تھا لالو تو صرف ایک کلو بلی کا بچہ تھا۔ اس لیے تو یہ بے گور و کفن گلی میں پڑا ہے۔ شاید انسان ہوتا تو اسے کفناتے دفناتے اور پھر فاتحہ ہوتی، سوم اور چہلم ہوتا۔ چلو اس خرچ سے گلی والے تو بچ گئے۔
یہ بلی کا بچہ لالو صرف دو ماہ کا تھا۔ یہاں تو روز درجنوں انسان نما حیوان انسانوں کا قتل کرتے ہیں۔ لالو اور اس کے خاندان نے کسی کا کوئی قتل نہیں کیا بلکہ خود قتل ہوگیا۔ اس کی ماں کلو کئی روز غم زدہ ہوکر بھول تو گئی لیکن لالو جس پڑوسن بچی صفیہ کے ساتھ کھیلتا تھا وہ اسے بھلا نہیں پائی۔ اکثر اس کے پاس آ کر ’’میاؤں‘‘ کہہ کر اجازت لیتی اور کھانا مانگتی۔ یعنی آخری سوال روٹی کا ہے۔