عالمی سرمایہ داری مختلف ادوار میں اپنی شکلیں اور طریقہ کار بدلتی رہتی ہے۔ پہلے تو نوآبادیات میں براہ راست وسائل کو لوٹا جاتا تھا ، پھر صدیوں تک عوام ان سے لڑتے رہے، قتل ہوتے رہے اور جب سامراج سے سنبھالا نہیں گیا تو اپنے نمایندے مقرر کرکے جدید نوآبادیات یا نئی نو آبادیات کا نام دے دیا۔ یہ سلسلہ اب بھی تقریباً بیشتر پسماندہ ملکوں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
اب بھی 29 قومیں تاج برطانیہ کی غلام ہیں۔ ان میں خاص کرکینیڈا، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، مارشل آئی لینڈ وغیرہ ہیں۔ پاکستان سامراجیوں کے ماتحت نئی نوآبادیات یا جدید نوآبادیات میں شمار ہوتا ہے۔ 1948 میں پاکستان کے 3 روپے کے برابر ایک امریکی ڈالر تھا۔ نہ کوئی بھوکا مرتا تھا ، نہ بے روزگاری تھی اور نہ ہی مہنگائی تھی۔
کراچی کی بڑی بڑی سڑکیں صبح سویرے پانی سے دھلتی تھیں۔ لمبی لمبی گاڑیاں ، سڑکوں پر نہیں دوڑتی تھیں بلکہ ٹرام ، ڈبل ڈیکر بسیں، سرکلر ریلوے ٹرین رواں دواں تھیں، لوگوں کی تنخواہیں کم تھیں، اجناس بھی سستا تھا اورکرایہ بھی کم تھا۔ زندگی کے لوازمات اتنے نہیں تھے، صابن سے کپڑے دھلتے تھے۔ نہ فریج تھا ، نہ مائیکرو ویو اوون تھا اور نہ واشنگ مشین۔ مگر لوگ مہنگائی کی پریشانیوں سے نہ ڈپریشن کا شکار تھے اور نہ کل کے لیے فکرمند۔ مگر آج کھانے کے لالے پڑے ہیں۔ دوسری طرف کل کے سرمایہ دار اگر 10 کروڑ کے مالک تھے تو آج ڈالروں میں ارب پتی ہیں۔
کل کا سرمایہ دار اگر معمولی گاڑی میں سفر کرتا تھا تو آج کا سرمایہ دار ایک یا دو کروڑ کی گاڑی میں سفر کرتا ہے۔ کل کا وزیر اعظم لیاقت علی خان کے کپڑے میں اگر پیوند ہوتا تھا تو آج کا وزیر اعظم ہیلی کاپٹر سے سفر کرکے اپنے گھر جاتا ہے۔ راقم کے خیال میں یہ نعرہ درست ہے کہ ’’ہمیں بم نہیں روٹی چاہیے، میزائل نہیں قلم چاہیے۔‘‘ پہلے دفاعی (جنگی) بجٹ برائے نام تھا اور اب دفاعی بجٹ تقریبا90 فیصد ہے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پہلے پہل امداد اور ترقی کے نام پر ڈالر فراہم کرتا تھا ، جب پسماندہ ملکوں کے حکمران رقوم ، امداد اور تعاون کے نام پر ڈالر ملنے لگے تو ان کا کمیشن بھی بڑھتا گیا اور وہ لالچ میں پھنستے گئے۔ اب وہ قرضوں کے بوجھ تلے اتنے دب گئے کہ وہ ملکوں کو گریپی، پٹے اور کارپوریٹ کے بندھن میں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ سری لنکا کی بندرگاہ ہو، پاکستان میں بھاولپور، چاغی، تھر سمیت لاکھوں ایکڑ زمین 99 سال کے لیے پٹے پر لے رکھی ہے۔ جن میں غیر ملکی بادشاہت ، مغربی سامراج، جنوبی کوریا، آسٹریلیا وغیرہ شامل ہیں ، مگر ان لوٹ اور استحصال کے خلاف چونکہ عام شہری ہی زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اس لیے وہ سراپا احتجاج بھی کرتے ہیں۔
امریکی شہر سیاٹل میں آئی ایم ایف کے ہونے والے اجلاس کے دوران بائیں بازو کے انارکسٹ اور کمیونسٹ اجلاس کے کمرے میں داخل ہوگئے تھے اور ان کی فائلیں پھاڑ دی تھیں۔ پھر عالمی سرمایہ داری کا مرکز امریکی اسٹاک ایکسچینج ’’وال اسٹریٹ قبضہ تحریک‘‘ چلی، جس کا نعرہ تھا (we are 99%) ہم 99 فیصد ہیں۔ 88 ملکوں کے 900 شہروں میں دنیا بھر کے عوام نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ہم 99 فیصد ہیں۔ پھر آئی ایم ایف اور سرمایہ داری کے خلاف فرانس میں ڈیڑھ سال تک انارکسٹوں نے پیلی جیکٹ تحریک چلائی، انھوں نے اپنے 12 مطالبات بھی منوائے۔
اب پاکستان میں ہر فرد شہری ہو یا پیداواری قوتیں ہوں یا محنت کش عوام آئی ایم ایف کے قرضوں، لوٹ اور مہنگائی میں جبراً اضافہ کروانے کے عمل سے اکتا گئے ہیں۔ اب کوئی ایسا شخص نہیں جو آئی ایم ایف کی حمایت کرے۔ اب اس آئی ایم ایف کے پھندے سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے، باقی سارے راستے بند گلی کی جانب جاتے ہیں اور وہ ہے قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کرلیا جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ سامراجی ممالک اقتصادی پابندیاں لگا دیں گے۔ اس سے قبل کیوبا ، شمالی کوریا ، بولیویا ، ایکواڈور، ایران، چلی، وینزویلا اور بہت سے ملکوں نے آئی ایم ایف کے قرضہ جات کو ضبط کرلیا تھا۔ ان پر سامراجی معاشی قدغن لگائیں ، مگر ان ملکوں پر قبضہ نہیں کرسکے۔ اس کے برعکس کئی خطوں کے علاوہ صوبے، نیم ریاستی علاقوں میں کمیون بھی قائم کیا ہوا ہے۔ کسی نے کیا بگاڑ لیا؟ متذکرہ ممالک صرف 1/2 کروڑ کی آبادی رکھتے ہیں جو امریکا سے سو دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
ایران اور سوشلسٹ کوریا پر بھی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ایک موقع پرکیوبا پر پابندیاں ہٹانے کے لیے 143 ملکوں میں 141 ملکوں نے حق میں ووٹ دیا جب کہ امریکا اور اسرائیل نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ پھر بھی پابندیاں ختم نہیں کی گئیں۔ وینزویلا کے خلاف مسلسل برملا سازشیں کی جا رہی ہیں۔ بولیویا ، ایکواڈور، چلی اور بہت سارے ممالک جرأت مندی سے آئی ایم ایف کا قرضہ ضبط کرکے جی رہے ہیں۔ جب قرضے ضبط کرنے والے ممالک میں اضافہ ہوگا تو سامراجی کتنے ممالک پر اقتصادی پابندی لگا سکیں گے اور پھرکون مانے گا۔ ایران اور شمالی کوریا کہاں مان رہے ہیں۔
پاکستان معدنیات، سونا، چاندی، تانبے، گیس، کوئلہ، جستہ اور پھلوں سے لدا پڑا ہے، اگر ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ٹیکنیکل مدد لیں اور باقی کام خود کریں تو ہم آئی ایم ایف کے قرضہ جات سے نجات پا سکتے ہیں۔ ہمیں فیدل کاسترو، کم ال سنگ، مارشل ٹیٹو، ہوچی منہ، جمال ناصر اور باکونن بننا پڑے گا۔ اپنی معیشت کو بروئے کار لانے کے لیے خود انحصار اور خود مختار بننا پڑے گا۔ اگر بیل گاڑی پر سفر کرنا پڑے تو کوئی حرج کی بات نہیں۔چٹنی روٹی کھانا کوئی بری بات نہیں ہاں مگر ادھار بریانی کھانا ایک تذلیل کے عمل سے گزرنا ہے۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام میں مضمر ہے۔ جہاں سب مل کر کام کریں گے اور مل جل کر بانٹ لیں گے۔ کوئی گداگر ہوگا اور نہ کوئی ارب پتی ہوگا۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔