سیف سٹی پراجیکٹ

پشاور کیلئے سیف سٹی پراجیکٹ  منصوبہ 2009-10 میں اس وقت زیر غور آیا جب شہر پشاور کے ساتھ ملک کے کئی دیگر علاقے دہشت گردی کی زد میں تھے اس وقت کی حکومت اور اداروں نے پشاور کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد میں سیف سٹی پراجیکٹس شروع کرنے کا اعلان کیا لاہور اور اسلام آباد میں اس منصوبے کی تکمیل کو کئی سال ہوچکے ہیں بلکہ پنجاب کے دوسرے شہروں میں اس نوعیت کے منصوبوں کے اجراء اور عوامی جان و مال کو محفوظ بنانے کیلئے باقاعدہ سیف سٹی اتھارٹی قائم کی گئی ہے سیف سٹی پراجیکٹ کے ذریعے سب سے بڑا منصوبہ متعلقہ شہر کے کئی مقامات پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور افسران کے دفاتر اور سینٹرل کمانڈ اینڈ کنٹرول روم سے اسکی براہ راست مانیٹرنگ ہے۔
 سیف سٹی پراجیکٹ کے ذریعے پشاور کے850 سے زیادہ مقامات پر6ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جانے کا منصوبہ تھا جس کا مقصد نہ صرف جرائم پیشہ‘ دہشتگرد اور مشکوک افراد پر نظر رکھنا‘ کسی جرم کی صورت میں ان کیمروں کے ذریعے تفتیش میں مدد حاصل کرنا اور ساتھ ہی ان ساڑھے آٹھ سو مقامات پر پولیس کے عوام کیساتھ رویہ پر نظر رکھنا ہے جس سے جرائم میں کمی اور تفتیش میں بہتری کیساتھ ساتھ پولیس کے رویے کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے بدقسمتی سے یہ منصوبہ تیزی کے ساتھ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے ایک بار پھر سیف سٹی پراجیکٹ کیلئے50 کروڑ روپے کی رقم رکھی ہے اگرچہ منصوبہ اربوں روپے کا ہے مگر عملی کام نہ ہوا  تو یہ رقم ایک بار پھرضائع ہو جائیگی۔
یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ترقیافتہ ممالک میں جرائم کی شرح میں کمی اور مجرموں کی گرفتاری میں سب سے بڑی وجہ جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب ہے جسکے ذریعے پورے پورے شہر کی کیمرے کی آنکھ سے دن رات نگرانی کی جاتی ہے اور کسی معمولی مشکوک حرکت پر متعلقہ پولیس اور ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔پشاور کے موجودہ پولیس سربراہ اعجاز خان نے بھی سی سی ٹی وی کیمروں کی اہمیت کے پیش نظر ایک چھوٹا منصوبہ شروع کیا ہے جس کے ذریعے کم تعداد میں مخصوص علاقوں میں کم لاگت سے بننے والے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں اورمزید لگائے جارہے ہیں جس سے براہ راست پولیس افسران متعلقہ مقامات کی نگرانی کر سکیں گے اور ان کیمروں کیساتھ باقاعدہ پولیس لائٹ اور بڑی سرچ لائٹ بھی نصب ہے جس کو شمسی توانائی کے ذریعے چلایا جارہا ہے موجودہ دور میں ٹیکنالوجی خاص کر سی سی ٹی وی کیمرے جرائم اور دہشت گردی میں کمی اور کسی جرم کی صورت میں مجرم تک رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اگر سیف سٹی جیسے منصوبے کسی کی وجہ سے تاخیر کاشکار ہیں تو کم لاگت سے مزید پانچ چھ سو کیمرے لگا کر بھی شہر کی نگرانی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج