بچوں کے خلاف جرائم اور روک تھام

پشاور صدر میں گزشتہ ماہ تین بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان میں سے دو کو بے دردی سے قتل کرنے والے ملزم کو تو گرفتار کرلیا گیا ہے جس نے عدالت میں بھی اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے مگر ان واقعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ معاشرے میں ایسے بے شمار درندے ہیں جو ایسے معصوم بچوں کی تاک میں رہتے ہیں جو اکیلے گھر سے باہر جاتے ہوں یا زیادہ تر گلی محلے میں کھیلتے ہوں ظاہر ہے بچوں کو گھر تک محدود نہیں رکھا جا سکتا البتہ یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ کسی محلے‘ گلی‘ گاؤں میں کوئی بھی ایسا مشکوک شخص نظر آئے جو دکان پر آنے والے بچوں‘ سکول اور مدرسے آنے جانے والے‘ باہر کھیلنے والے بچوں کے زیادہ قریب جانے کی کوشش کرے ان کو چھونے کی کوشش کرے یا ان کو ٹافی‘چاکلیٹ‘ آئس کریم یا پیسے دینے کی کوشش کرے تاکہ ان کو اپنی طرف راغب کرسکے تو ایسے شخص کی نہ صرف نگرانی کرنی چاہئے اسکی ویڈیو اور تصاویر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے بلکہ محلے اور دیگر لوگوں کی مدد سے ایسے افراد کو باقاعدہ روکنے ٹوکنے اور نہ رکنے پر متعلقہ پولیس کو آگاہ کرنا چاہئے ہمارے لاکھوں بچے روزانہ لازمی گھر سے نکلتے ہیں ان پر غلط نگاہ رکھنے والا خواہ رشتہ دار ہو‘ ہمسایہ ہو‘ دکاندار ہو‘ معاشرے کا بظاہر اہم کردار ہو جو بھی ہو ان کی حوصلہ شکنی‘ انکی نشاندہی‘ معاشرتی بائیکاٹ اور جرم کی صورت میں پولیس اور عدالتوں کے ذریعے باقاعدہ سخت سے سخت سزا دلوانا ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے۔

 گزشتہ چند سالوں کے دوران ایسے واقعات سامنے آنے کے بعد قانون سازی تو کی گئی ہے خاطر خواہ سزائیں بھی رکھی گئی ہیں مگر بچوں سے زیادتی اور ان پر غلط نگاہ رکھنے والے بے شمار لوگ روزانہ جرم کرکے بھی بچ جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ عوام میں خصوصاً والدین میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی ہے باہر کے ممالک میں ایسی بے شمار فلمیں بھی ہیں جن میں کسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچے پر کئی سال بلکہ دہائیوں تک اس جرم کے نفسیاتی اثرات کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح اس جرم کا شکار بننے والے بچے سالہا سال تک یہ عذاب بھگتنے کے بعد پرتشدد بن جاتے ہیں ضروری ہے کہ ہمارے ہاں بھی والدین‘ اساتذہ‘ معاشرے کے بڑے علماء‘ وکلاء‘ صحافی اور معاشرے کے تمام اہم افراد  بچوں کو تشدد سے بچانے کیلئے معاشرے میں آگاہی پیدا کریں اس کیلئے قانون سازی اور مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کیلئے زور دیں والدین اور معاشرے کو یہ بتائیں کہ کسی بھی ایسے اقدام کو باقاعدہ جرم کے طور پر شمار کرکے اس کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے قانون کا ساتھ دیں۔

 معاشرے ایسے کیسز میں کسی مجرم کی طرفداری یا معاملہ رفع دفع کرنے کی بجائے بچے اور انکے والدین کیساتھ کھڑا ہو اور قانون کے ہاتھ مضبوط کرے‘ پے درپے ایسے واقعات کے بعد مختلف ادارے‘ ضلعی انتظامیہ‘ حکومتی ادارے اور پولیس اس سلسلے میں مختلف انداز میں کام کر رہے ہیں تاکہ رات دیر تک باہر رہنے والے بچوں‘ خصوصاً بچیوں یا گھر سے باہر جا کر کھیلنے والے بچوں اور بچیوں کو درندوں سے محفوظ رکھ سکیں پشاور پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے اس سلسلے میں سینکڑوں گداگربچوں اور بچیوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا ہے جن کو باآسانی نشانہ بنایا جا سکتا ہے اس سلسلے میں حکومت  این جی اوز‘ مخیر اداروں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں‘ منتخب نمائندوں معاشرے کے بڑوں کا اہم کردار ہے۔ان سب بچوں کو خصوصاً ان کو جو باامر مجبوری گھر سے باہر رہنے پر مجبور ہیں ان کو تحفظ کا احساس اور محفوظ ماحول کی فراہمی وقت کا اہم تقاضا ہے ہم سب کو اس میں کردار ادا کرنا ہے ان وحشی درندوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہے ان کو قانون سے سزا دلوانا ہے اور ہر حال میں بچوں اور بچیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے جس میں وہ آزادی کیساتھ بڑھ سکیں کھیل سکیں‘ یہ ایک مسلسل عمل ہے اس سے غافل ہونے کی گنجائش ہر گز نہیں۔

 

بشکریہ روزنامہ آج