پشاور میں گزشتہ چند دنوں کے دور ان سینکڑوں ایسے افراد کو بحالی مراکز منتقل کیا گیا ہے جو آئس‘ ہیروئن اور دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتے کرتے سڑکوں پر آگئے تھے۔ان بڑی تعداد میں نشے کے عادی افراد کو مختلف سرکاری و نجی مراکز میں علاج‘ رہائش خوراک کے علاوہ مختلف انداز میں تربیت دی جارہی ہے تاکہ ان کی قوت مدافعت کو بہتر بنایا جا سکے انکی صحت بہتر ہو اور وہ ان مراکز سے باہر آنے کے بعد واقعی ایک بہتر اور نشے سے پاک زندگی گزار سکیں۔ اکثر ہوتا یہی ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کیلئے اس طرح کی مہم چلائی جاتی ہے لوگ واہ واہ کرتے ہیں اور چند دن ان افراد کو مراکز میں رکھنے کے بعد ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے گھر بار سے نکالے گئے لوگ محنت مزدوری اور آمدنی کا ذریعہ نہ ہونے کے باعث ایک بار پھر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
وہ ایک بار پھرغم کو بھلانے کیلئے ایک دو کش لگاتے ہیں اور پھر سے اسکے عادی ہو جاتے ہیں پھر وہ سڑک کنارے کسی پل کے نیچے‘ کوڑا دان کے پاس یا کسی ویران جگہ نشہ کرکے یا لوگوں سے روٹی اور نشے کیلئے بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں ایک بڑی تعداد میں نشے کے عادی افراد اسی حد تک قوت مدافعت کھو چکے ہوتے ہیں کہ شدید موسمی حالات سردی‘ گرمی یا نشے کی زیادتی سے انکی سڑک کنارے ہی موت واقع ہو جاتی ہے انکے بارے میں جاننے کی کوشش کریں تو انکی بڑی تعداد اچھے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے مگر والدین اور گھر والوں کی جانب سے عدم توجہ‘ انکی پرورش میں غفلت‘ انکی سرگرمیوں اور حلقہ احباب پر نظر نہ رکھنے کی وجہ سے یہ لوگ اس حالت تک پہنچتے ہیں ابتداء میں نشے کیلئے گھر میں چوری چکاری کرتے ہیں۔
گلی محلے میں لوگوں سے مانگ کر نشے خریدتے ہیں لیکن چند ماہ بعد گھر والے اور جاننے والے سب ان کو لعنت ملامت کرکے گھر سے نکال دیتے ہیں گویا انہوں نے اپنے ماتھے سے کلنک کا ٹیکہ ہٹا دیا ہے مگر ایک قیمتی انسانی جان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں انکی حالت دیکھتے ہیں تو جس انداز میں یہ سڑکوں پر سوئے ہوتے ہیں کوڑا دان سے اٹھا کر کھاتے ہیں بدن زخموں سے چور ہوتا ہے بال بکھرے اور لمبے ہوتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے مگر شاید ہی انکے گھر والوں کو انکی اس حالت کا علم ہو نہ صرف یہ بلکہ اب تو بچے اور خواتین تک جگہ جگہ قابل رحم حالت میں پڑے ہوتے ہیں اس بار کی مہم میں بڑی تعداد میں ایسے افراد کو بحالی مراکز منتقل کرنے کے بعد ضروری ہے کہ آئندہ ایک سال تک انکی باقاعدہ نگرانی جاری رکھی جائے انک کو کسی ہنر کی تربیت دیکر مفید شہری بنایا جائے۔
ایک بہترین اقدام نشہ آور اشیاء کے ساتھ میڈیکل سٹورز میں نشہ آور ادویات کی ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر فروخت پر پابندی ہے ایسی بڑی تعداد میں شربت‘ گولیاں اور کیپسول سرعام چھوٹے موٹے میڈیکل سٹورز پر فروخت ہو رہے ہیں جو نشے کے عادی افراد نشہ نہ ملنے کی صورت میں استعمال کرتے ہیں یہ دکاندار ان ادویات کی منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں بلکہ بعض سٹورز کی ساری آمدنی ہی ان ہی ادویات کی فروخت سے ہے اس مہم کے دوران ان تمام اداروں کی بھی اہم ذمہ داری ہے جو قانون نافذ کرتے ہیں انکی ذمہ داری ہے کہ ایسے تمام گروہوں‘ مافیاز اور افراد کے خلاف بھرپور کاروائی کریں جو معاشرے میں خصوصاً تعلیمی اداروں اور نوجوان نسل میں آئس‘ ہیروئن‘ چرس‘ افیون‘ شراب اور نشہ آور ادویات کا زہر پھیلا رہے ہیں جوانکی تیاری سمگلنگ اور فروخت میں ملوث ہیں حکومت‘اسکے اداروں‘ والدین‘ معاشرہ اور ہم سب کو اس جہاد میں اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ ہماری نسلیں اس زہر سے محفوظ ہوں۔