افغانستان تقریبا چالیس پینتالیس سالوں سے جنگ کی حالت میں ہے دونوں جنگیں افغانستان جیسے پسماندہ ملک نے دنیا کیدو سب سے بڑی طاقتوں کے خلاف لڑیں ، پہلی جنگ اس وقت کے متحدہ سویت رشیا کے خلاف لڑی اور دوسری جو اب اختتام کیجانب بڑھ رہی ہے وہ امریکہ کے خلاف لڑی ، پہلی جنگ کا نتیجہ تو ہم سب نے دیکھا کہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک طاقتکا شیرازہ بکھر گیا اور کئی ریاستوں میں بٹ گیا ، اور دنیا میں طاقت کا پلڑا صرف ایک ہی جانب جھک گیا اور امریکہ دنیا کا پولیسمین کا کردار ادا کرتا نظر آیا ۔
پہلی جنگ کا زکر ہوا ہے تو اسکے محرکات کیا تھے اور اس کا انجام کیا ہوا اس پر بھی بات کرتے ہیں !
سال 1978 میں افغانستان میں افغان کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالا یہ اقتدار ایک بغاوت کے نتیجہ تھا ،
اس پارٹی نے ملک میں جدید اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا تو دیہی علاقوں میں اسے انتہاء نا پسند کیا گیا اورسورش نے سر اٹھاناشروع کردیا ، اس کے نتیجے میں حکومت نے اپنے ہزاروں مخالفین کو پھانسی پر چڑھا دیا
جسکی وجہ سے حکومت کو خلق پارٹی اورپرچم پارٹی کی شدید مخالفت اور دشمنی کا سامنا کرنا پڑا ،
ستمبر 1978 میں پیپلز ڈیمو کریٹک کے سکریٹری جنرل نور محمد تراکء کو پارٹی کے انچارج حفیظ اللہ امین کے کہنے پر قتل کردیا گیا، کیونکہ حفیظ اللہ آمین کو شک تھا کہ نور محمد کے تعلقات سوویت یونین رشیا کے ساتھ ہیں ، دوسری جانب سوویت یونین نے بھیبھانپ لیا تھا کہ حفیظ اللہ امین متحدہ امریکہ کی جانب جارہا ہے ، اسی کو بنیاد بناکر 24 دسمبر 1979 میں سوویت یونین نیافغانستان پر حملہ کردیا اور کابل پر قبضہ کرنے کے بعد اور اسے آپریشن طوفان کا نام دیا گیا اور صدر حفیظ آمین کو قتل کرنیکے بعد حکومت مخالف پارٹی اور سوویت یونین کے حلیف ببرک کارمل کو مسند اقتدار پر بٹھادیا !
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سوویت مداخلت کے خلاف ایک قرارداد منظور کی ، اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے گئیتو وہیں سوویت مداخلت کو صحیح مانتے ہوئے اسکی حمایت میں چار ووٹ پڑے جس میں ہندوستان بھی شامل تھا ۔
اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاالحق کی حکومت تھی ، افغانستان میں رشیا کے خلاف جو مزاحمت کار تھے ان کو امریکہ اوربرطانیہ کی بھرپور حمایت ملنے لگی اور یہ حمایت پاکستان کے توسط سے مل رہی تھی یعنی ، امداد ، فوجی تربیت اور بھاری مالیامداد وغیرہ ، سی آء اے نے پاکستان کی اینٹیلی جنس کی مدد سے آپریشن شروع کئے وہیں پاکستان میں موجود مدرسوں جنہیںسعودی عرب کی پشت پناہی حاصل تھی انکے طالب علموں کو جہاد کے نام پر افغانستان بھیجا جانے لگا ، اس کی آڑ میں جماعتاسلامی پاکستان کی طلبہ جماعت جمعیت نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اپنے لڑکوں کو جو تھنڈر اسکواڈ میں شامل تھے انہیںافغانستان صرف عسکری تربیت کے لئے بھیجنا شروع کردیا اور خاص طور پر کلاشنکوف ، مشین گنز وغیرہ چلانے کی تربیت کے لئے۔
شروع میں سویت کا منصوبہ ایک سال کا تھا کہ ببرک کارمل کی حکومت کو مستحکم کرنے کے بعد یہاں سے چلے جائیں گے مگر انہیںگوریلا انداز میں اس قدر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اگلے نو سال تک وہیں پھنسے رہے اور اس کا نتیجہ سوویت سلطنتوںکے حصے بخرے کے سامنے آیا !
دوسری جانب امریکہ ، سعودیہ ، انگلینڈ دوسری بڑی طاقتیں پاکستان کی مدد سے گوریلاں کی مدد میں لگ گئیں ، پاکستان میں اسوقت آمر جنرل ضیا کی حکومت تھی اور ضیا الحق نے ہی طالبان کو جنم دیا ، آء ایس آء نے مدرسوں کے طالب علموں کو جہاد کیترغیب دینا شروع کی اور انہیں جنگ میں جھونکنا شروع کردیا ، اس میں کوء دو رائے نہیں ہے کہ طالبان آء ایس آء کی پیداوار تھیاور ہے !
اس جنگ کا نتیجہ جو بھی تھا مگر اس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے ، اس وقت بیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کابوجھ صرف غیر ملکی امداد کی لالچ میں اٹھایا جو بعد میں ناسور بن گئے اور اس کی شکل ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر میں سامنےآء ،
کل کے مجاہدین آج کے دہشت گرد ٹہرے ۔ اس جنگ سے خطے کے چند ممالک پر تو ضرور پڑا مگر دنیا پر زیادہ اثر نہیں ہوا مگر ایکنتیجہ یہ ضرور نکلا کہ دنیا اس وقت دو طرفہ طاقتوں کے درمیان بٹی ہوء تھی یعنی امریکہ اور روس ،
روس کی طاقت کا بھرکس نکل گیا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور دنیا میں صرف ایک ہی سپر پاور بچ گء ۔
دو ہزار ایک اور ستمبر گیارہ یعنی نائن الیون ، دنیا میں بھونچال آگیا ، تاریخ کی اصطلاحات ہی بدل گئیں جو پہلے قبل از مسیح اوربعد از مسیح پر مبنی تھی اب نو گیارہ سے پہلے اور نو گیارہ کے بعد ہوگء ،
تاریخ کو کیا کہئے کہ اس وقت بھی پاکستان میں آمر ہی کی حکومت تھی یعنی جنرل پرویز مشرف کی !
اب امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پڑی اور اس دفعہ بھی نشانہ تھا افغانستان مگر اب صورتحال مختلف تھی جو طالبانان ہی ممالک نے مل کر بناء تھی اب مزاحمت اس ہی کے خلاف کرنی تھی مگر نقشہ قدرے بدل چکا تھا ، طالبان میں ایک جماعت اورشامل ہوگء تھی یعنی القاعدہ ! یہ بھی بڑی طاقتوں نے ہی بناء تھی مگر اب انکے خلاف ایکشن لینا تھا ، جنرل مشرف نے بلاچوں و چرا اپنے ہواء اڈے اور زمینی اڈے امریکہ کو دے دئے ۔
ابھی تھوڑا پیچھے دوبارہ چلتے ہیں ، روس جب افغانستان سے نکلا تھا تو تم وہ انخلا نکلنے والا نہیں بھاگنے والا زیادہ تھا ، روسکی اس لڑاء میں دو لاکھ سے زائد افغانی اور بیس ہزار روسی ہلاک ہوئے وہیں پچاس لاکھ سے زائد افغانی بے گھر ہوکر مہاجروں کیشکل میں دوسرے ممالک میں ہجرت کر گئے ،
سال 1989 میں میخائل گورباچوف نے اپنی فوجیں واپس بلالیں ، تو روس وہاں کی کٹھ پتلی نجیب اللہ کی حکومت کو تنہا چھوڑ کرفرار ہوا اور ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں اپنا اسلحہ اور فوجی ساز و سامان بھی یونہی چھوڑ کر فرار ہوا جو طالبان کے ہاتھ لگااور اسے مزید مظبوط بنادیا گیا ، القاعدہ اور طالبان کے اس دور میں افغانستان دنیا بھر کی گوریلا تنظیموں اور دہشت گرد تنظیموںکی جنت بن گیا چاہے وہ آئرش ری پبلک کے دہشت گرد ہوں یا الشباب کے دہشت گرد ۔ جماعت اسلامی ہو یا ملت اسلامی ، چیچن ہو یاازبکستان کے ازبک جنگجو سب وہیں جمع ہونے شروع ہوگئے تھے اور وہاں سے اپنی کارروائیاں کرتے اور اپنی ضروریات پوری کرنیکے لئے پوست کی کاشت ، ہیروئن اور اسلحہ کا کاروبار منظم کیا ۔
نو گیارہ کے بعد جب امریکہ نے عراق کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تو اسکے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑے ، دہشت گردی کی وہلہر اٹھی کے پاکستان کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ،
روس کی جنگ کے بعد جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو اس کے ایک شعیہ کمانڈر جنرل رشید دوستم وہاں سے فرار ہوگیااور مزار شریف میں پناہ لی اور اپنی ایک پارٹی شمالی اتحاد کے نام سے بنالی تھی ۔ امریکہ کو اب اس کی ضرورت پڑی تو رشیددوستم کے زریعہ طالبان پر حملہ کیا اور تاثر یہ دیا گیا کہ یہ افغانوں کی آپس کی لڑاء یا جنگ ہے بالکل ویسے ہی جیسا کہ 1992 میں آء ایس آء کراچی میں آفاق احمد اور عامر خان کو حقیقی کے نام سے لے کر آء تھی الطاف کی متحدہ کو ختم کرنے کیکیلئے اور تاثر یہ دیا گیا کہ مہاجروں کی آپس کی لڑاء ہے حالانکہ بچہ بچہ جانتا تھا کہ یہ فوج کے ایجنٹ ہیں اور ان کا کوء کردارنہیں ہے اصل میں فوج ہی مار رہی ہے مہاجروں کو ، تو اس ہی طرح رشید دوستم کی بھی کوء حیثیت تو نہیں تھی مگر اس نے اوراسکے لوگوں نے طالبان کو انتہاء ظالمانہ انداز سے قتل کرنا شروع کردیا ،
امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت قائم کی گء اور امپورٹ کئے گئے حامد کرزء کو صدر بتادیا گیا اور دوستم کو بھی انعام میں حکومتمیں شراکت داری دی گء ، دو دفعہ حامد کرزء کے بعد قر فال اشرف غنی کے نام نکلا ۔ پچھلے بیس سالوں میں افغانستان میں کیاہوتا رہا اسکی وجہ سے پاکستان میں کتنے ہزار لوگ لقم اجل بنے اور دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوئے ان سب باتوں لپیٹ کر سیدھاموجودہ صورتحال پر آجاتے ہیں .
امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے انتہاء اجلت میں افغانستان سے انخلا کیا ، پچھلے بیس سالوں سے جو طالبان پسپاء اختیار کئے ہوئیتھے یا محفوظ ٹھکانوں پر روپوش تھے ، انتہاء برق رفتاری سے شہر شہر ، قصبہ قصبہ گلی گلی پر قابض ہوتے چلے گئے حتی کہشمالی صوبے جو کبھی طالبان کے زیر اثر نہیں رہے وہاں پر انتہاء آسانی سے قبضہ کرلیا ، آخری حد صرف کابل اور اس کاصدارتی محل رہ گیا تھا ، افغان اشرافیہ ملک سے فرار ہونے میں ہی عافیت جان رہی تھی اور جان رہی ہے ، اشرف غنی کی حکومتصرف کابل کے صدارتی محل یا چھ سات کلو میٹر تک ہی محدود رہ گء تھی ، افغان فوج جسے امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں نیتربیت دی تھی اپنے جوتے تک چھوڑ کر فرار ہوگئے ، اشرف غنی جن قبائلی جنگجوں پر تکیہ کئے بیٹھا تھا ان جنگجو سرداروں نیبھی بلا مزاحمت ہتھیار ڈالنے میں عافیت جانی ، طالبان کا دشمن رشید دوستم اپنا محل چھوڑ کر فرار ہوگیا ، کابل ائیر پورٹ پرہزاروں افراد جمع ہوگئے اور ہنوز وہیں موجود ہیں ان میں بڑی تعداد کروڑ پتیوں اور تاجروں کی ہے مگر فی الوقت کابل ائیر پورٹ سیبین الاقوامی پروازیں بند کردی گء ہیں ، کابل سے نوے فیصد ممالک کے سفارت خانے بند ہوگئے اور سفارتی عملہ غائب ہوگیا ، امریکہکو اپنا سفارتی عملہ وہاں سے بحفاظت نکالنا ہے جس کے لئے امریکہ چھ ہزار اضافی فوج صرف سفارتی عملہ کو نکالنے کے لئیدوبارہ کابل بھیجی ہے ، کابل ائیر پورٹ امریکی فوج کا قبضہ ہے اور آج طالبان کابل کے صدارتی محل پر بھج قابض ہوگئے یعنیعملی طور پر پورا افغانستان فتح کرلیا ، اشرف غنی بھی ملک چھوڑ کر فرار ہوگیا اور ازبکستان میں پناہ لے لی ۔ اس پورے عمل کیدوران انڈیا نے اپنے تمام قونصل خانے بند کردئے جو کہ اس نے تقریبا ہر صوبہ میں قائم کئے ہوئے تھے ، حتی کہ پاکستان کیسرحدوں کے قریب بھی اپنے قونصل خانے کھولے ہوئے تھے ، ہندوستان نے ان پچھلے بیس سالوں میں کھربوں روپے کی انویسٹمینٹکی تھی کہ امریکہ بہادر اسے شاباشی دے گا اور وہ وہاں سے پاکستان پر دبا ڈالے گا مگر ہندوستان کی کھربوں روپے کیانویسٹمنٹ ملیا میٹ ہوگء ۔
اس عمل کے دوران خطہ میں تو بھونچال آیا ہی ہے دنیا بھر میں ہلچل مچ گء ہے ، کء ممالک میں مزاکرات کے دور شروع ہوگئے اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انتہاء عجلت میں اجلاس طلب کرلیا ہے ، چائنہ ، ایران اور سعودی عرب نے تو ڈپلومیسی سے کاملیتے ہوئے اپنی راہیں ہموار کرلی ہیں مگر پاکستان کا کیا ہوگا ؟ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، پاکستان سوشل میڈیا پر نوجوان اسیاسلام کی فتح گردان رہے ہیں اور جدید دور کے ارطغرل غازی اور سلطنت عثمانیہ سے تشبیہ دے رہے ہیں مگر یہ انکی بہت بڑی بھولہے وہ بھول رہے ہیں کہ پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف یہی طالبان لائے تھے ، وہ یہ بی بھول رہے ہیں کہ پچھلے پندرہ بیسسالوں میں جو اسی نوے ہزار پاکستانی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں اس کی وجہ بھی یہی طالبان تھے ، وہ بھول رہے ہیں کہپاکستان کی ایجنسیان کیا گل کھلاتی رہی ہیں جسے اب بھگتنا پڑے گا ، وہ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کا بیٹا ہو یا سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا بیٹا ، دونوں ہاء پروفائل تھے اور آسانی سے اغوا کئے جانے کے بعد اس وقت کیافغانستان ایکسپورٹ کردئے گئے تھے جب طالبان سامنے نہیں آسکتے تھے تو اب کی کیا صورتحال ہوگی ؟
لوگ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ کراچی کے طول و عرض میں اغوا برائے تاوان میں طالبان کا بھی ہاتھ تھا اور بھتے کے لئے فون کالزافغانستان سے آتی تھیں تو اب کی صورتحال کیا ہوگی ؟ یہ وقت مزاکرات کا نہیں ہے کہ ایک اور مزاکرات پھر ایک اور !! بات اس سیبہت آگے نکل چکی ہے ۔ اقوام متحدہ یا دوسری عالمی طاقتیں مذاکرات ہی کرتے رہیں گے اور یہاں پکتیا ، کنڑ اور مزار شریف کی طرحپہلے قبائلی علاقوں پر قبضہ ہوگا اور پھر شہروں پر ، پاکستان براہ راست نشانے پر ہے ، میڈیا پر یہ تاثر دیا جارہے ہے کہ بھارت کوشکست ہوگء اس کا مال ڈوب گیا مگر اندر خانے خاکی پتلونیں گیلی ہونی شروع ہوگء ہیں ، عمران خان جو ایک جوکر کی طرح کاحاکم ہے اور اسے جہاں سے ڈکٹیٹ کیا جاتا پے اب اسے بھی نہیں معلوم کہ کرنا کیا ہے اور ہوگا کیا ؟
مزاکرات سے کوء فائدہ نہیں ، ہاں اگر فائدہ ہوا بھی تو پاکستان کا اس میں کوء حصہ شاید ہی ہو ! مزاکرات کے آگے دیکھنا چاہئیکہ اگلی چال کیا ہوگی اور پہاڑوں سے اتر کا طالبان پاکستان کا رخ کب کرتے ہیں اس ہی مہینے یا اس ہی سال ؟