میں بحیثیت پاکستانی اپنے آپ سے شرمندہ ہوں کہ میں اس ملک میں پیدا ہی کیوں ہوا تھا ؟ مُلک ؟ کیا واقعی پاکستان ایکمُلک ہے ؟ نہ تو ہم اسے جنگل کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہاں کے جانوروں اور درندوں کا اپنا قانون ہوتا ہے ، نہ ہم اسے غاروں کے دوروالے انسانوں کا ملک کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ تو بے رحم موسموں سے ، درندوں اور جانوروں اور بیماریوں سے لڑ کر جیتے تھے ۔پاکستان ! نہ جانے کیا سوچ کر اس کے ساتھ پاک لگادیا ؟ صرف باتیں کروالو ، ہانکیں لگوالو ، بڑھکیاں لگوالو بس اس سے آگے کیقوم نہیں ہم ،اس سے پیچھے ہم جانوروں سے بدتر وحشی اور خونخوار درندے اور دہشت سے بھرپور لوگ ہیں ۔ مکروہ چہرے ، ناپاکعمائل ، بدکار ، غلاظت میں پَٹے ہوئے لوگ ۔ خوف و دہشت کی علامت ، نہ قوم صحیح نہ حاکم ، نہ چوکیدار اور پہرے دار صحیح نہقانون نہ ادارے ، نہ سپہ سالار صحیح نہ امام ۔ باتیں بڑی کڑوی ہیں مگر سچ یہی ہے ۔
چرسیوں ، ہیروئنچیوں اور کچی کُپؔی لگانے والوں سے پٹا پڑا ملک ۔ جھوٹ فریب ، مُکر سے بھرا پڑا ملک ، غداروں اور دعویداروں سےبھرا پڑا ملک ، جہالت کے اندھیروں میں اوندھے منہ گرا ہوا ملک ۔ یہی سچ ہے ۔ ڈکیتوں چوروں اور لُٹیروں سے مالا مال ملک ، پیروںفقیروں ، درگاہوں ، مزاروں پر چلنے والا ملک ۔ حاسدوں ، فاسقوں اور جاہلوں سے بھرا ملک ہاں یہی پاکستان ہے ، جو ایک غلیظ کُنواںبن چُکا ہے بس سب اپنی اپنی کھوہ بناکر رہ رہے ہیں ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھارہے ہیں ۔ قوالیوں اور تالیوں کی تھاپ پر دھمالڈالنے والوں کا ملک ۔ میں بھی ان ہی میں سے ایک گندا اور مکروہ انسان ہوں کیونکہ میں بھی پاکستانی ہوں ۔
خاکروب سے لیکر حاکم اور سپاہی سے لیکر چیف آف آرمی اسٹاف تک ، عدالتوں کے پیشکار اور وکیل سے لیکر چیف جسٹس تک سبکے سب کرپٹ اور بے ایمان ۔
اور ان سب کے زمہ دار ہم خود ہیں، ہم خود بھی کرپٹ ہیں اور بڑے عہدوں پر بھی کرپٹ لوگوں کو ہی بٹھاتے ہیں پھر سینہ پیٹتے ہیں۔
سب سے بڑا پاکستان کا المیہ پولیس کا ہے جس نے پورے ملک کو طوائف کا کوٹھا بنا رکھا ہے ، بائیس کروڑ عوام کو پتہ ہے کہ پولیسکا کردار کیا ہے مگر بے حس بنے دیکھتے اور سُنتے رہتے ہیں ، پولیس ڈپارٹمنٹ پاکستان کا سب سے بڑا ناسور ہے ، جن کا کامانصاف فراہم کرنا ہے وہی ڈاکو ، قاتل اور لُٹیرے بنے ہوئے ہیں ۔ حرام خور اور رشوت خور جو صرف اس لئے اس ڈپارٹمنٹ میں آتے ہیںکہ عوام کو زلیل و خوار کرنا ہے اور حرام کا مال جمع کرنا ہے ، نہ ان کی کوئ ٹریننگ نہ تعلیم و تربیت ۔ نخوت بھرے چہرے ، بڑی بڑیتوندیں اور انتہا سے زیادہ جاہل اور پھر سیاسی بھرتیاں ، جو پورے ملک کو لُوٹ کھسوٹ رہے ہیں ، پاکستان میں ہزاروں پریشانیاںاور مسائل کی اصل جڑ یہی پولیس ہے ، اگر پولیس ٹھیک ہوتی تو آج پاکستان میں بھی خوشحالی ہوتی ، جو اگلے سو سال تک توناممکن ہی نظر آتا ہے ۔ عدالتوں کا نظام بھی کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں ہے انتہائ فرسودہ اور رشوت عام ۔ اوپر سے نیچے تک سوائےکرپشن کے کچھ نظر نہیں آتا ، نہ کسی کو انصاف میسر ہے نہ کوئ امید ، دہرا نظامِ انصاف ، غریب کے لئے کچھ اور امیر کے لئےکُچھ ۔ سو سال پرانا انگریز کا چھوڑا ہوا قانون ۔ قانون اندھا ہے مگر پاکستان میں قانون دھندہ ہے ۔
فوج جو کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہوتی ہے جو ملک کا فخر ہوتی ہے وہ بھی مافیا بنی ہوئ ہے ، حکومتوں کو لانے اور گرانے سےلیکر سازشوں میں ملوث ، ملک پر قبضہ سے لیکر مارشل لاز تک کی انکی اپنی ایک تاریخ ، پراپرٹی ڈیلر سے لیکر کھاد تک کا دھندہکرنے والی فوج ، پانی کے ٹینکرز سے لیکر اینٹوں کے بھٹّہ چلانے والی فوج ، شہروں پر قبض اور عوام کو محکوم بنانے والی فوج ، آدھاملک اور نوّے ہزار کی تعداد میں ہتھیار ڈالنے والی فوج ، قوم کو نغموں پر ٹالنے والی فوج ، دہشت گردوں کو بنانے اور انکو پالنے والیفوج ، عوام کو پچھتر سال سے صرف یہ بتانے والی فوج کہ “ اسلام خطرہ میں ہے “ ، کشمیر لیکر رہیں گے “ اور بھارت تمہارا دشمن“
پہلے بنگالیوں کو محکوم بناکر اور آدھا ملک گنوا کر اب کراچی پر قابض ہیں اور اندھیر نگری مچائ ہوئ ہے ۔ سیاست میں گلے تکلپٹی ہماری فوج جس کے چار سابقہ چیف آف آرمی اسٹاف غیر ملکوں میں رہ رہے ہیں ، وہ فوج جسکے میجر ، کرنل اور جنرل کبھیریٹائر نہیں ہوتے اور ملک کے نوّے فیصد اداروں پر قابض فوج۔ ملک کا بیڑہ غرق کرنے والی فوج جو ملک کا اسّی فیصد بجٹ ہڑپجاتی ہے ، جس فوج کے سابقہ آفیسرز باہر ملکوں اور اندرون ملک اربوں کا کاروبار کرتے ہیں مگر مجال ہے کہ کوئ اس “ مقدس گائے“ سے کوئ پوچھ لے ۔
سیاستدان ! ان کا تو نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے ،۔ اس ملک کے وہ دہشت گرد ، ڈاکو اور قاتل جنہیں اپنے گھر ڈکیتیوں ، چوریوں اوراپنوں کو قتل کرانے کے لئے ہم خود انہیں لیکر آتے ہیں ، گلوں میں سریا ڈالے یہ سیاست دان عوام کو اپنا پالتو کُتا سمجھنے والے اورعوام بھی کُتّے کی طرح دُم ہلاتے !
ایک شہر میں ایک انتہائ مفلوک الحال اور بھوک سے بے حال فقیر نے شہر میں منادی کرائ کہ ہر شہری خواہ مجھے صرف سو روپےدے تو میں انکی اور انکے شہر کی حالت جادو سے بدل دونگا ، دو کروڑ کی آبادی والے شہر کہ ہر شہری نے سوچا کہ صرف سو روپےہی تو ہیں ہوسکتا ہے یہ ہماری قسمت بدل دے اور اسے ہر شہری نے سو سو روپے دے دئے ، یوں اُس فقیر کے پاس ایک دن میں ہی دوارب روپے جمع ہوگئے ، فقیر نے شہر کے وسط ایک اعلی شان بنگلہ بنوالیا ، گاڑیاں اور نوکر چاکر رکھ لئے ، گارڈز اور چوکیدار بھیآگئے اور اپنا کاروبار بھی شروع کردیا ، عوام جادو کا انتظار کرتی رہی اور جب کچھ نہ ہوا تو جو بھی پوچھنے جاتا کہ کب ہماریقسمت بدلو گے تو اسے ب بنگلہ سے باہر اسکے غُنڈے اسے انتہائ بے دردی سے مارتے اور بعد میں پولیس اسے حوالات میں بند کردیتیکہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ ایک معزز شخص کے گھر جانے کی اور کچھ پوچھنے کی ؟ یوں عوام نے سوچا چھوڑو دفع کرو ہمارےصرف سو روپے ہی تو گئے ہیں ۔ تو بالکل یونہی سیاسی فقیر آپ سے ایک ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں اور آپ کو بتاتے ہیں کہ آتے ہیوہ انکی قسمت بدل دے گا مگر بعد میں وہی کرتا ہے جو اس فقیر نے شہریوں کے ساتھ کیا ، اور عوام سوچتی کہ دفع کرو ایک ووٹ ہیتو دیا تھا ، ہمارا کیا گیا ؟
ہم میں سے ہی یہ سیاسی فقیر ملک کے والی مالک بنے بیٹھے ہیں ، جاہل گنوار آپ کی قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں ، دن میں پانچپانچ دس دس کروڑ کمانے والے عیاش ، شرابی کبابی اور زانی آپ کے حکمران ۔ دس دس بیس داشتائیں رکھ کر آپ کا پیسہ اُن پرلُٹانے والے سیاستدان ، کوئ مزہب کا نعرہ لگاکر تو کوئ قومیت کا راگ الاپ کر مُلک و قوم کو بانٹنے والے یہ سیاستدان ہمارے پیسوںپر عیاشی کرنے والے یہ سیاستدان ، نہ ان سے کوئ کچھ پوچھ سکتا ہے نہ کوئ بازپُرس ! ملک کے بڑے قومی اداروں میں اکیس بائیسگریڈ پر اپنے لوگوں کو بٹادیتے ہیں ، تعلیمی ڈگریاں تو انکے ہاس ہوتی ہیں مگر کیا ہمیں نہیں پتہ کہ یہ ڈگریز انکو گھر بیٹھے ملجاتی ہیں گھر بیٹھے میٹرک ، انٹر اور ماسٹر سے لیکر پی ایچ ڈی تک کرلیتے ہیں اب یہ لوگ مقتدر اداروں میں مسلط کردئیے جاتے ہیں۔
ملک کی ائیر لائن ہو یا میونسپلٹی ، ریلوے ہو یا تعلیم سب کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے ، نہ انہیں پڑھنا آتا ہے نہ لکھنا مگر ان سے پوچھکون سکتا ہے ؟ افریقہ کے کسی پسماندہ قبیلہ سے بھی بدتر نظام اور لوگ ۔
سب سے بڑا پاکستان کا مسلہ مزہب ، مزہبی لیڈرز ، علماء ، مفتی ، مزہبی سیاسی جماعتیں ، فرقہ ، فقہ ، مولوی مُلّا ، علامہ ، عالماور عامل ہیں جو پاکستان کو پتھر کے زمانے میں لے کر چلے گئے ہیں ، شکلوں پر وحشت و دہشت ، حُلیہ ایسا کہ دیکھ کو خوف آئے ۔یہ وہ گِدھ ہیں جو جو مُردار قوم کو نوچ نوچ کر کھارہے ہیں ، ضیاءالحق کا بویا ہو مزہبی پودا اب تناور درخت بن چکا ہے جس کیجڑیں اب اتنی مظبوط ہوچکی ہیں کہ انہیں نکالنا یا اُکھاڑنا ناممکن ہوگیا ہے ،
ہم نے تو پڑھا تھا کہ اسلام کے بہتّر فرقہ ہونگے مگر پاکستان میں ہزاروں فرقہ بن چکے ہیں ، کوئ ہری پگڑی تو کوئ سفید پگڑیباندھے ، کوئ صافہ لپیٹے تو کوئ توپ یا رومال لپیٹے سب کو لپیٹ رہا ہے ، پاکستان وجود میں آنے کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستانمیں فرق و تفریق پیدا کی گئ ملک کی چوّن فیصد آباد کو محکوم بنایا گیا انکے حقوق پامال کئے گئے ، ان کو ہر میدان میں پیچھےدھکیلا گیا بعد میں غدّار تک قرار دے کر ملک کو دو لخت کردیا گیا ،بچے کُچے پاکستان میں جاگیردار ،
وڈیرہ شاہی ، سرداری اور چودھراہٹ قائم ہوگئ اور عوام کا استحصال کیا جانے لگا دس بارہ سال تک تو یہی چلتا رہا مگر روس کےافغانستان پر حملے کے بعد میں پاکستان میں جہادی پیدا کئے گئے ، طالبان اور القاعدہ بنائ گئ اسکے بعد تو مزہبی جنونیت کاعفریت بوتل سے نکل آیا گلی گلی کوچوں کوچوں لشکر اور سپاہ تیار ہونے لگے ، مدرسوں کو سعودی عرب کی پشت پناہی سے آ مزہبیجنونی بنادیا گیا ، رنگ برنگ کی پگڑیاں اور صافے وجود میں آگئے مساجد میں اگر بتیاں بیچنے والے عالم بن گئے ، مفت کی زمیناسلام آباد میں لال مسجد اور مدرسہ بناکر خود مہتمم اور علامہ اور مفتی بن گئے ، کوئ جھنگوی تو کوئ لاہوری گروپ بناکر بیٹھ گیا، بہرہ گنگا میں سیاسی لومڑیوں نے بھی مزہبی سیاسی جماعتیں بنالیں ، کہیں مزاروں اور قبروں کو پُوجا جانے لگا ، کہیں مراقبہ توکہیں قوال پارٹیاں شروع ہوگئیں ، کافر کافر کے نعرہ لگنے شروع ہوگئے ، ہر شخص دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگانے لگا ۔ مزہب کے نامپر قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا ایک دوسرے کی مساجد اور امام بارگاہیں جلانے لگے ، حکومت آہستہ آہستہ انکے آگے گُھٹنے ٹیکنےپر مجبور ہونے لگی ، عید بقرعید پر اختلافات شروع ہوگئے ملک میں تین تین عیدیں شروع ہوگئیں ، گلی گلی مساجد اور بارگاہیں بننےلگیں ۔ بات یہاں تک محدود نہ رہی اب جس کا دل چاہے کسی پر بھی مزہبی بے حرمتی اور تو ہین رسالت کا الزام لگاکر سرِ بازار قتلکرنے لگے اور ریاست بُت بنی دیکھتی رہی ،
دس بارہ سال پہلے سیالکوٹ میں دو نوعمر حافظ بھائیوں کو ڈکیتی کا الزام لگاکر سڑک پر ڈنڈوں لاتوں گھونسوں سے قتل کرکے انکیلاشوں کو گھسیٹا گیا ، لٹکایا گیا ، لاشوں پر ڈنڈے بسائے گئے ، ٹرالی پر لٹکا کر شہر میں لاشوں کو گھمایا گیا ، لوگ وڈیو بناتے رہےحتی کے پولیس بھی تماشہ دیکھتی رہی ، وحشت کا ننگا ناچ پوری قوم نے دیکھا ، اس وقت کے حکمرانوں نے بڑے بڑے دعوے کئے کہزمہ داروں کو کیفر کردار پہنچایا جائے گا ، مقتولین کے لواحقین کو انصاف دلایا جائے گا ، وہی پُرانے راگ ہاٹ ۰ ہونا کچھ نہیں تھااور نہ ہوا اُلٹا تمام ملزمان باعزت بری ہوکر آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں ،
مکران یونیورسٹی میں مشال خان کو تو ہین رسالت پر الزام لگاکر بے دردی سے قتل کیا گیا وہی بربریت کا ننگا ناچ ناچا گیا ، حاصل ؟کچھ نہیں کوئ سزا نہیں کوئ پکڑ نہیں ، ساہیوال میں زاتی جھگڑے کو توہین مزہب کی آڑ میں عیسائ جوڑے کو اینٹوں کے بھٹّے میںجھونک کر زندہ جلا دیا گیا ، پھر وہی بلند بانگیں لگائ گئیں کہ ملزمان بچ نہیں سکیں گے کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا ، مگر ہوا کیا؟ اگر ان تمام جرائم کے ملزمان کو کڑی سزائیں دی جاتیں تو کیا آج کوئ پھر زندہ جلایا جاتا ؟
پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو ان کے ہی گارڈ نے توہین رسالت کا الزام لگاکر گولیاں ماردیں ، اسے پھانسی تو دی گئ مگرایک مزار اور بن گیا پیچھے ہزاروں مجاور ، مرشد پیدا ہوگئے ایک قاتل کا عرس منایا جانے لگا ،
ان ہی جنونیوں میں سے ایک لنگڑے لولے شخص نے بھی مزہبی جماعت بنالی “ تحریک لبیک پاکستان “ کے نام سے ۔ جنونیوں ، دہشتگردوں ، وحشیوں کے جُھنڈ کے جھنڈ جمع ہونا شروع ہوگئے ۔ پاکستان پہلے ہی جنونیوں سے بھرا پڑا تھا ایک نئ تفریح ہاتھ لگ گئ ،پارٹی کا سربراہ مرگیا تو جانشیں ان اس کا بیٹا بن گیا کیونکہ یہ تو ایک باقاعدہ دھندہ ہے ، جب دل چاہتے پورے ملک میں ریلیاںجلوس نکالنے لگے ، وجہ وہی پرانا پاٹ ، ناموس رسالت ، اللہ رسول کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے لگے ، عاشقان رسول ایسے کے لوگوںکی املاک نزرآتش کرنے لگے ، جماعت کو ریاست کی طرف سے کالعدم قرار دیے دیا گیا مگر شاباش ہے ریاست پر کہ ایک کالعدمجماعت الیکشن بھی لڑ گئ اور پندرہ لاکھ ووٹ بھی لے لئے ، ابھی حال ہی میں فرانس کے وکیل کو ملک بدری کا مطالبہ کرنے لگے پھرملک بند کیا گیا ، قتل وزارت شروع کی گئے املاک نزر آتش کی گئیں ، حکومتی مشینری حرکت میں اور انکے لیڈر اور کارکنان کوگرفتار کیا گیا ، مگر شاباش ہے حاکم پر اور بعد میں فوج کے سربراہ ہر کہ ان دہشت گردوں کے آگے گُھٹنے ٹیکے گئے انہیں معافیدیدی گئ اور تمام پابندیاں جو پہلے ہی نام نہاد پابندیاں تھیں وہ اُٹھالے گئیں ۔
اب اس خمیازہ بھگتا گیا اور سیالکوٹ میں گزشتہ دنوں جو ہوا وہ پوری دُنیا نے دیکھا ، سر شرم سے جھک گئے ۔ پاکستان جو ویسےہی بدنام ہے مزید داغدار ہوگیا ، یہی وہی لبیک پارٹی ہے جسے کچھ دنوں پہلے ہی کلین چِٹ دی گئ تھی اب بُھگتو ان مزہبی دہشتگردوں اور جنونیوں کو ، ایک غیر مُلکی اور غیر مسلم کو مزہب کے پر درندگی کا جو مظاہرہ ہوا ہے وہ تو اسرائیلی بھی نہیں کرتے اورمیں لکھ کر یہ بات دے سکتا ہوں جو بھی اس قتل میں ملوث تھے انہیں کلمہ تک نہیں آتا ہوگا نہ ایک وقت کی نماز پڑھتے ہونگے نہانہیں اسلام کی الف ب آتی ہوگی ، پولیس کا کردار ، ریاست کا کردار ، عوام کا کردار کیا تھا ؟ لوگ اتنے بے حس اور بے غیرت ہوچکےہیں کل ایسے واقعات کی بھی وڈیوز بنانے سے نہیں چُوکتے ،
مقابلہ امریکہ اور یورپ سے کرتے ہیں ، یہاں ایک کُتّے یا بلی کو مار کر دکھائیں پھر پتہ چلے گا کہ قانون کیا ہوتا ہے اور اس کیپاسداری کیسے کی جاتی ہے !
حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا کہ !
"تم وحشی ہو تم قاتل ہو
-------------------------
ناموس کے جھوٹے رکھوالو!
بے جرم ستم کرنے والو!
کیا سیرت نبوی جانتے ہو؟
کیا دین کو سمجھا ہے تم نے؟
کیا یاد بھی ہے پیغام نبی؟
کیا نبی کی بات بھی مانتے ہو؟
یوں جانیں لو، یوں ظلم کرو،
کیا یہ قرآن میں آیا تھا؟
اس رحمت عالم نے تم کو،
کیا یہ اسلام سکھایا تھا؟
لاشوں پہ پتھر برسانا،
کیا یہ ایمان کا حصہ ہے؟
الزام لگاؤ مار بھی دو؟
دامن سے مٹی جھاڑ بھی دو؟
مسلماں بھی کہلاؤ اور پھر،
ماؤں کی گود اجاڑ بھی دو؟
تم سے نہ کوئ سوال کرے؟
نہ ظلم کو جرم خیال کرے؟
اس دیس میں جو بھی جب چاہے،
لاشوں کو یوں پامال کرے؟
لیکن تم اتنا یاد رکھو،
وہ وقت بھی آخر آنا ہے!
ہے جس کے نام پہ ظلم کیا،
اس ذات کے آگے جانا ہے!
اس خون ناحق کو پھر وہ،
میزان حشر میں تولے گا!
وہ سرور عالم محسن جاں،
تم سے اتنا تو بولیں گے!
اے ظلم جبر کے متوالو،
تم حق کے نام پہ باطل ہو!
تم وحشی ہو تم قاتل ہو!
سیالکوٹ کی سڑک پہ نہ صرف ایک انسان جلا بلکہ
انسانیت جلی' قانون جلا ' ریاست کی رٹ جلی ہے ۔ اسلام اور پاکستان کا امیج جلا ۔ پوری دُنیا کے میڈیا نے پاکستان کو ٹارگٹ کیاہوا ہے ، دُنیا کا میڈیا پاکستان میں ہونے والے سابقہ تو ہین رسالت کی آڑ میں ہونے والے مبینہ واقعات کو بھی بتارہا ہے، اس پر طرہ یہکہ پہلے بھی سری لنکن کرکٹ ٹیم کو پاکستان میں ٹارگٹ کیا تھا اور اب یہ مزموم واقعہ پیش آیا ہے ، ہم ہندوؤں کی انتہا پسندی کوتو بہت اُچھالتے ہیں مگر کیا کبھی اپنے گریبان میں جھانکا ہے ؟ پورا ملک ڈاکوؤں ، قاتلوں ، مزہبی انتہا پسندوں اور جنونیوں سے بھراپڑا ہے ، ایک طالب علم اپنے استاد کو کلاس میں چھریاں مار کر قتل کردیتا ہے اور برملا کہتا ہے کہ مجھے کوئ ندامت نہیں یہقادیانی تھا اس لئے قتل کیا ، کورٹ مین پیشی کے وقت لوگ اس قاتل کے ہاتھ چوم رہے تھے ، ماتھے کو بوسہ دے رہے تھے ، یہ ہےہماری قوم ۔ اب تو بہت آسان ہے کہ آپ زاتی رنجشوں ، فرقہ وارانہ دشمنیوں ، کاروباری مفادات ، سیاسی مفادات کو تو ہین رسالتاور توہین مزہب کی آڑ میں پورا کریں اور جسے چاہے سر عام قتل کرادیں اور زندہ جلادیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیلفی بنانے کےشوقین اور وڈیوز بناکر اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی یہ وبا خطے میں کیا اثر ڈالتی ہے ؟ سری لنکا میں یا کہیں اور کتنےمسلمان اس کا خمیازہ بھگتیں گے ! اور پھینکو ان مزہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کے آگے ہتھیار ، یہ ہے ریاست جو با آسانی انجیسے جنونیوں کے آگے گھٹنا ٹیک دیتی ہے اور ہتھیار ڈال کر انکے تمام مطالبات بلا چوں و چرا مان لیتی ہے ، اب بُھگتو انہیں ۔ ابھیتو ہم انہیں بھی بھگتیں گے جنہیں ریاست میں با آسانی قومی دھارے میں آنے کا کہہ رہی ہے ۔ کورونا پاکستان کا ایسا کچھ نہیںبگاڑ سکتا جتنا مزہبی جنونیت کا وائرس بگاڑ رہا ہے ۔
یورپی یونین ، اقوام متحدہ ، ایمنسٹی انٹرنیشل اور امریکہ نے پاکستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کھل کر کہا کہانہیں پاکستان میں مزہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت پر تشویش ہے ۔ ریاست بتائے کہ اس نے ان جنونیوں کے خلاف اب تک کیااقدامات کئے ؟ میں پھر کہوں گا کہ اگر سیالکوٹ میں گیارہ سال پہلے آئے واقعہ کو جس میں دو نوجوان بھائیوں کو قتل کیا گیا تھااگر انہیں انصاف مل جاتا اور ملزمان کیفر کردار تک پہنچ جاتے تو آج یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا ۔
میرا یہ آرٹیکل پڑھ کر میرے اپنے ہی نام نہاد مسلمان دوست مجھ پر لعن طعن کرینگے اور پاکستان کو دُنیا کی بہترین اورمظبوط ریاست گرادنیں گے ، مجھے کافر اور غدّار کہیں گے مگر مجھے اسکی کوئ پرواہ نہیں جو سچ ہے وہ سچ ۔ ہم بے حس ، ظالم ،دہشت گرد ، بے غیرت اور بے رحم لوگ ہیں ۔