یونان کی سمندری حدود میں کالاماتا کے مقام پر غیر قانونی طور پر اور بہتر مستقبل کی تلاش میں اٹلی جانے تارکین وطن کیکشتی جب سے ڈوبی ہے ہم سب کا دل بھی ڈوبا ہوا ہے ، ایک انتہائ دل دہلا دینا والا واقعہ ہوا جو پوری دُنیا کے منہ پر ایک زرو دارطمانچہ ہے خاص طور یونانی اتھارٹیز کے منہ پر ، مغرب کے منہ پر اور اس سے زیادہ زور سے طمانچہ ہماری حکومت کے منہ پر اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے منہ پر ۔ کشتی تو ڈوبی ، سینکڑوں لوگ تو ڈوبے ساتھ ہماری غیرت بھی ڈوب گئ .
کوئ پچھلی ایک دہائ سے آئے دن خبریں ملتی ہیں کہ لیبیا کے ساحل سے غیر قانونی طور پر لوگوں کو لیجانے والی کشتی یورپ کیسمندری حدود میں حادثہ کا شکار ہوگئ اور درجنوں اور کبھی کبھار سینکڑوں افراد سمندر برد ہوگئے ، پچھلے چھ سال میں اسطرح کے حادثات میں تقریباً ساڑھے سات ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں یعنی سالانہ قریباً بارہ سو افراد سمندر کی بےرحم موجوں کینظر ہوجاتے ہیں مگر نہ یہ سلسلہ رُکا اور نہ ہی انسانی اسمگلنگ اور نہ ہی یہ اندونہاک حادثات ۔ انسانی اسمگلرز نے اپنا ٹھکانالیبیا بنایا ہوا ہے مگر نہ تو اقوام متحدہ وہاں کوئ کارروائی کرنے کا کچھ کہہ رہی ہے اور نہ ہی کوئ اور دوسری طاقتیں اور اس طرحکے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہورہے ہیں بلکہ ان میں شدت آتی جارہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے جیسے مرنے والوں کی تعدادبڑھ رہی ہے انسانی اسمگلرز اتنی ہی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ انسانی اسمگلنگ زیادہ تر شام ، مصر، عراق ، پاکستان ، افغانستاناور فلسطین میں زیادہ ہے کیونکہ ان ممالک کے نہ تو معاشی حالات اچھے ہیں اور نہ ہی سیاسی حالات ، غربت ، لُوٹ مار ، تعلیم کیکمی اپنے عروج پر ہے۔ ان ممالک میں طبقاتی نظام ، امیر غریب کا انتہائ فرق بھی ایک بنیادی وجہ ہے کہ حالات سے مایوس لوگ اپناوطن چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
اس واقعہ کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ سنڈیکیٹ کس قدر منظم ہے اور انکی جڑیں کہاں کہاں پھیلی ہوئ ہیں ، پاکستان میں پنجاب اورآزاد کشمیر میں اس سنڈیکیٹ کے کارندے درجنوں کے حساب سے موجود ہیں , پاکستان میں انکے کارندے گوجرانوالہ ، سیالکوٹ ،گجرات ، شیخو پورہ اور کوٹلی میں اور ان ہی کارندوں کے رشتہ دار لیبیا سے بیٹھ کر یہ سنڈیکیٹ چلاتے ہیں انکے علاوہ ، لیبیائ ،مصری اور ایرانی ایجنٹس موجود ہیں انکے علاوہ کچھ ترکی اور اٹلی میں ہیں ۔ یہ ایجنٹس یورپ کے سہانے خواب دکھا کر لوگوںسے کروڑوں نہیں اربوں روپے بٹورنے ہیں ، انکا نیٹ ورک زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں پھیلا ہوا ہے ، ان دیہاتوں سے جب کئ نوجوانجان کی بازی لگاکر اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں تو پیچھے رہ جانے والے دیگر نوجوان ان پر رشک کرنے لگتے ہیں مگر انہیں یہ معلومنہیں ہوتا کہ وہ کیسے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر وہاں پہنچے ہیں اور وہاں پہنچ کر کیا کررہے ہیں ؟ پانچ لوگ کسی چھوٹے شہر یادیہات سے اٹلی ، فرانس یا یورپ کے کسی اور ملک پہنچ جاتے ہیں تو ان چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں باقی نوجوان اپنے آپ کوبدقسمت گرداننے لگتے ہیں اور اپنی کاوشوں میں لگ جاتے ہیں کہ کسی طرح وہ بھی یہاں سے نکل جائیں ، اس ہی طرح نوجوانوں کوغیر قانونی طریقوں سے باہر بھیجنے والے ایجنٹس مزید فعال ہوجاتے ہیں اور یہ ایجنٹس بقیہ نوجوانوں کو اپنا مسیحا سمجھنے لگتےہیں ، اب یہ اپنے ریٹس بھی بڑھا دیتے ہیں ، پانچ دس یا پندرہ لاکھ نہیں چالیس چالیس پچاس پچاس لاکھ فی کس مطالبہ کرتے ہیں ،سوچنے کی بات ہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے باہر جانے کے متلاشی افراد کے پاس اتنی رقم آتی کہاں سے ہے ؟ تو یہ رقم انکےوالدین قرض لیکر ، ماں بہنیں اپنے زیورات بیچ کر ، اپنی گھر بار اور زمینیں بیچ کر ادا کرتے ہیں ۔ اپنی اولاد کے آگے وہ بے بسہوجاتے ہیں اور پھر ہمارے ملک میں بے روزگاری ، غیر مسیاوانہ طبقاتی نظام انہیں مجبور کردیتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو باہر بھیج دیں، ۔ انسانی اسمگلرز کے گروہ کے کارندے اپنے جال میں انہیں ایسا پھنساتے ہیں کہ چاہنے کے باوجود وہ اس سے نکل نہیں پاتے ،مزید یہ کہ کسی نوجوان کے محلے کے کئ دوست ، یا رشتہ دار نوجوان جب اس طریقہ سے باہر چلے جاتے ہیں تو وہ فرسٹریشن کاشکار ہوکر ان ایجنٹس سے رابطہ شروع کردیتے ہیں ۔
کچھ عرصہ پہلے تک یہ گروہ نوجوانوں کو بلوچستان کے راستے سے ایران ، وہاں سے ترکی اور اس سے آگے یورپ لیکر جاتے تھے ،سُننے اور پڑھنے میں یہ ایک آسان اوس انتہائ سادہ سا لگ رہا ہے مگر یہ بھی ایک ایک ایسا انسانی اسمگلنگ کا طریقہ ہے جسمیں سینکڑوں نوجوان موت کے منہ میں جاچکے ہیں ، کیونکہ انہیں پہلے پنجاب اور کشمیر کے گاؤں دیہاتوں سے اکھٹا کیا جاتا ہے اورکراچی لایا جاتا تھا ، وہاں ایک ایک کمرے میں پچاس پچاس نوجوانوں کو رکھا جاتا تھا ، اس سے اگلی منزل بلوچستان کے راستےایران جانے کی ہوتی تھی ، اسکے لیئے ٹرک کا استعمال کیا جاتا تھا اور ایک ٹرک میں سینکڑوں انسانوں کو جانوروں کی طرح ٹھونسکر بند کرکے لے جایا جاتا تھا ، ایرانی سرحد “ تفتان “ تک پہنچنے کے لئے انتہائ مشکل گزار پہاڑی راستوں سے گزرنا پڑتا ہے، بندٹرک میں آکسیجن کی کمی ، پانی کی کمی اور بھوک پیاس سے ہی کئ لوگ راستے میں ہی مرجاتے تھے ، ایرانی سرحد سے کوسوںدور ٹرک سے اتار کر انہیں پیدل پہاڑوں پر چڑھنے کو کہا جاتا کہ یہاں سے گزر کر وہ ایران پہنچیں گے ، دوسری جانب کئ دہائیوںسے بلوچستان کے حالات خراب ہیں اور وہاں علیحدگی پسند گروپس متحرک ہیں اگر وہ ٹرک ان دہشت گردوں کی نظر میں آجاتا تھاوہ سب کو گولیوں سے بھون دیتے تھے ، یہ واقعہ بھی ایک ڈیڑھ سال پہلے پیش آیا ہے ، ایرانی بارڈر پر بھی اگر بارڈر فورس کی نظرمیں آگئے تو انکی گولیوں کا نشانہ بن جاتے تھے ، یقیناً ایران میں بھی ان اسمگلرز کے رابطہ ہونگے جو انہیں کئ دنوں بعد ترکی کیسرحد پار کراتے ، ترکی سے ان لوگوں کو بحیرہ اسود کے اس چھوٹے کنارے لے جایا جاتا تھا جسکا پاٹ تھوڑا چھوٹا ہے اور دوسرےکنارے یونانی کی سمندری حدود ہیں ، یہاں بھی انہیں اس پانی کے کٹاؤ میں ٹائرز کے زریعے یا ربر کی چھوٹی کشتیوں میں دوسریجانب پہنچایا جاتا ہے اور اس میں بھی درجنوں لوگ ڈوب کر مرجاتے تھے اور یہ سلسلہ اس سنڈیکیٹ کے لئے تھوڑا طویل اور مشکلتھا تو انہوں نے اب یہ راستہ ڈھونڈ لیا تھا یعنی لیبیا سے بحر اوقیانوس کے راستے اٹلی جانے کا ۔ تیسری دنیا کے غریب ممالک کےلوگ کسی بھی حال میں اپنے ملک سی نکلنا چاہتے ہیں اور انہیں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں ہوتی اور اب ہم تواتر کے ساتھ آئے دنسُنتے ہیں کہ سمندر میں غیر قانونی تارکیں وطن کی کشتی یا چھوٹا جہاز ڈوب گیا اور درجنوں افراد ڈوب کر مر گئے ، ابھی کچھعرصہ پہلے ہی ایسے ہی ایک حادثے میں پاکستان خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کی گول کیپر جن کا تعلق کوئٹہ سے تھا وہ بھی ہلاکہوگئ تھیں ۔
اب اصل مسلۂ یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے شہر یا دیہات سے ستّر ستّر اسّی اسّی نوجوان کسی انسانی اسمگلرز سے رابطہ کررہےہوں ، انہیں رقوم کی ادائیگی کروڑوں میں کررہے ہوں تو یہ کیسے ممکن کے کہ متعلقہ تھانے کی پولیس کو نہ معلوم ہو ، ایف آئ اے کونہ معلوم ہو ، آئ ایس آئ کو نہ معلوم ہو ، علاقہ کے کونسلر کو ، علاقے کے صوبائ اسمبلی کے ممبر ، قومی اسمبلی کے ممبر ، دیگرقانون نافذ کرنے والے ایجنسیز کو نہ معلوم ہو ؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک دن کام تو ہے نہیں مہینوں لوگوں کو جمع کیا جاتاہے ، پورا پورا گاؤں یا پورے خاندان کے نوجوان جارہے ہوتے ہیں اور ادائیگیاں کروڑوں اور اربوں میں ہورہی ہوتی ہیں ، انکے پاسپورٹسبن رہے ہوتے ہیں ، دُبئ اور لیبیا کے ائیر ٹکٹس بن رہے ہوتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ادارے اور حکومتی سرپرستی ان لوگوں کوحاصل نہ ہو ؟ اب جب یہ واقعہ ہوا تو ایف آئ اے ، ایجنسیاں ، پولیس ، ریاست سب ایسے متحرک ہوگئے جیسے انہیں کوئ خبر ہینہیں تھی اور ایک رات کی تاریکی میں یہ واقعہ پیش آگیا ہو ! پکڑ دھکڑ شروع ہوگئ ، بیانات اور مزمتیں شروع ہوگئیں ، یہ سب اسمیں ملوث ہیں ، یہ سب درندے ہیں ، حرام خور اور پانچ سو لوگوں کے قاتل ہیں ۔ برطانوی اخبار “ گارڈین “ اور برطانوی میڈیا نے اپنیرپورٹس میں بتایا ہے کہ کشی میں کم از کم پانچ سو پاکستانی موجود تھے ، جن میں سو سے زائد بچے اور خواتین بھی شامل تھیں ،بچ جانے والے پاکستانیوں نے بتایا کہ کشتی میں ان سے غیر انسانی سلوک کیا جارہا تھا ، تمام پاکستانیوں کو کشتی کے نچلےحصے میں رکھا گیا تھا جہاں کسی بھی حادثہ کے وقت انکا بچانا مشکل ہوتا ہے بنسبت اوپری حصہ کے ، انہیں نہ پینے کا پانی دیاجارہا تھا اور نہ ہی کھانا جسکی وجہ سے سات لوگ حادثہ سے پہلے ہی پیاس سے مر چکے تھے ، پاکستانیوں کو گالیاں دی جارہیتھیں ، انہیں مارا پیٹا بھی جارہا تھا ! آخر کیوں ؟ کیوں ؟
ایک تو وہ اسمگلرز پہلے ہی غیر قانونی کام کررہے تھے ، اربوں روپیہ ان سے لیا تھا تو پاکستانیوں کے ساتھ ان کا یہ رویہ کیوں تھا ؟کیونکہ ہم اپنی عزت و وقار ہر جگہ کھوچکے ہیں حتٰی کے چوروں ، مجرموں اور اسمگلرز تک کی نظر میں بھی ،
وہیں برطانوی میڈیا نے یونانی اتھارٹیز اور کوسٹ گارڈز کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ یونانی کوسٹ گارڈز اس کشتی کو حادثہ سے آٹھگھنٹے پہلے ہی دیکھ چکے تھے اور وہ باآسانی تمام انسانوں کی جان بچا سکتے تھے ، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ، انہیں پتہ تھاکہ انکی سمندری حدود میں ایک ایک غیر متحرک کشتی موجود ہے جس کا انجن تین دن پہلے ہی بند ہوچکا تھا ، یونانی کوسٹ گارڈاس کشتی تک حادثہ سے سات گھنٹہ پہلے پہنچ چکی تھی اور وہی دراصل اس حادثہ کا مؤجب بنے کیونکہ انہوں نے نہ تو اس کشتیسے انسانوں کو نکالنے کی کوشش کی اور نہ ہی فضائ مدد حاصل کی اور اس بند کشتی کو موٹی رسؔی سے باندھ کر گھسیٹنے کیکوشش کی اور اس میں وہ اپنا توازن کھوکر سمندر میں اُلٹ گئ ، اب اس حادثہ کی کئ وڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیںجنہیں کمزور دل کا کوئ انسان چند سیکنڈر بھی نہیں دیکھ سکتا ، ایک وڈیو حادثہ سے محض پانچ منٹ پہلے کی ہے جس میں دیکھاجاسکتا ہے کس طرح ماہی گیری میں استعمال ہونے والی کشتی میں انسان جانوروں کی طرح بھرے ہوئے ہیں اور ہاتھ اُٹھا اُٹھا کراپنی جان کی دُعائیں کررہے ہیں جبکہ دوسری وڈیو میں جو کہ یونانی کوسٹ گارڈز کی بوٹ سے ہی بنائ گئ ہے کہ کسطرح لوگسمندر میں ڈوب رہے ہیں ، کیسے یہ کشتی سمندر میں ڈوبی اور یونانی کوسٹ گارڈز یہ سارا تماشہ دیک کر ہنس رہے ہیں ۔
کیا ہماری حکومت نے یونان کے سفارت خانہ میں اپنا کوئ احتجاج ریکارڈ کرایا ؟ کیا یونانی حکومت سے اسکی وضاحت طلب کی ؟
دوسری اہم بات یہ کہ آج تمام ایجنسیز اور حکومت جو پُھرتی دکھا رہی ہے اور ان ایجنٹس کو گرفتار کررہی ہے کیا وہ خود اس میںملوث نہیں تھے ؟
جن جن علاقوں سے نوجوان گئے تھے اس علاقہ کا پورا تھانہ ، ایس ایچ او ، ڈی ایس پی ، ایس ایس پی ، ایس پی ، کونسلر ، قومی وصوبائ اسمبلی کا ممبر ، دیگر قانون نافذ کرنے والے ادرے کیا اسکے زمہ دار نہیں ہیں ؟ کیا یہ سب سینکڑوں انسانوں کے قاتل نہیںہیں ؟ یہ سب زمہ دار ہیں ان سب نے اپنا حصہ ہڑپ کیا ہے ، یہ سب حرام خور بلکہ آدم خور ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آج کا نوجواناپنے ملک سے نالاں ہے ، مایوس ہے ؟ کیوں اپنا وطن چھوڑ کر جانا چاہتا ہے ؟ وجوہات تو ہزارہا ہیں مگر ہمارا غیر مساویانہ طبقاتینظام ، ظلم و ستم ، مہنگائ ، بے روزگاری ، سیاسی رسہ کشی ، امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے ،انصاف کا نہ ہونا ۔ عجیب دوراہے پر کھڑے ہیں ہم ، مستقبل قریب میں تو کچھ بدلتا نظر نہیں آرہا اور نہ ہی مستقبل بعید میں شایدسڑا گلا نظام یونہی چلتا رہے گا پچھتر سال پہلے لاکھوں لوگ بہتر مستقبل کے لئے ٹرینوں میں ، پیدل اور گلی کوچوں میں کٹ مر گئےتھے اور آج پچھتر سال بعد بھی بہتر مستقبل ہی کی تلاش ہے اور سمندر میں ڈوب کر مررہے ہیں ، انسان تو بے چارے اپنی جان سےگئے ہی ، ہماری تھوڑی بہت غیرت بھی ان لاشوں کے ساتھ ڈوب گئ ۔