ایران نے بلاجواز اور انتہائی غیر زمہ داران قدم اُٹھاتے ہوئے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک فوجی کارروائی کی جس میںتین معصوم بچے شہید ہوگئے ۔ یہ کارروائی کوئ اچانک یا کسی گروہ کی نہیں تھی بلکہ ایرانی حکومت کی اجازت سے باقاعدہ فوجیکارروائی تھی جس کا بعد میں ایران کی وزارت خارجہ کی طرف سے اسے تسلیم بھی کیا گیا اور کہا کہ پاکستان کے صوبہبلوچستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہ کی خبر تھی اور یہ حملہ ان پر ہی کیا گیا ہے ،
انتہائ حیرت انگیز بات تھی کہ اگر آپ کے پاس دہشت گردوں کی اطلاع بھی تھی تو آپ خود کسی ملک میں جاکر کیسے کارروائیکرسکتے ہیں ؟ نہ ایران نے پاکستان کو کوئ پیشگی اطلاع دی اور نہ ہی کوئ اینٹلی جینس شئیرنگ کی گئ اور یک طرفہ کارروائی کرڈالی ، آخر کیوں ؟ کوئ نہ کوئ بات تو تھی آخر ایران ثابت کیا کرنا چاہ رہا تھا ؟ اور کس کی ایماء پر ایسا کیا گیا اور ایسے وقتمیں جب وہ خود مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے اور پوری دُنیا کی جانب سے اس پر معاشی پابندیاں لگی ہوئ ہیں ، معاشی طور پر تباہ وبرباد ملک ہے ، ایک جانب اسرائیل اور فلسطین کی جنگ ہورہی ہے دوسری جانب یمن سے حوثی باغی بے لگام ہوچکے ہیں اور یمن اسک اخمیازہ بھگت رہا ہے ، دوسری جانب لبنان میں حزب اللہ کی وجہ سے مسائل ہیں اور شام میں بھی یہی حال ہی اور ان تمامصورتحال کا زمہ دار ایران ہی ہے اور وہی ان سب کو اسلحہ اور مالی معاونت کرتا ہے اور مغربی دنیا میں ایران انتہائ ناپسندیدہملک ہے جس پر معاشی پابندیاں لگائ گئ ہیں اور ایک تہائی سے زیادہ دنیا نہیں چاہتی کہ ایران ایٹمی قوت حاصل کرے ، ایران کو یہسب کرنے کی جُراءت بیٹھے بٹھائے تو نہیں ہوئ ہوگی ضرور اسکے پیچھے دوسری قوتیں ہیں اور وہ انجانی قوت بھارت ہے جسکےوزیر خارجہ نے حال ہی میں ایران کا دورہ کیا تھا اور یقیناً ان ہی کی جانب سے کوئ ڈس انفارمیشن دی گئ تھی اور ایران کاحوصلہ بڑھایا ہوگا ورنہ ایران کی نہ اپنی کوئ حیثیت ہے اور نہ ہی ہمت ،
بھارتی جاسوس جادیو بھوشن بھی ایران کے راستے ہی پاکستان میں داخل ہوا تھا اور پاکستان نے بارہا ایران کو متنبہ کیا اورانفارمیشن دیں کہ انکے صوبہ سیستان سے پاکستان میں کارروائیاں کی جاتی ہیں جہاں ایرانی حکومت کی کوئ رِٹ نہیں ہے اوریہاں بلوچ علیحدگی پسند پاکستانی بلوچوں کے کیمپس موجود ہیں اور یہ وہیں سے پاکستانی صوبہ بلوچستان میں دہشت گردانہکارروائیاں کرتے ہیں اور واپس ایران فرار ہوجاتے ہیں اور بھارت نے بھی کہ بات بلوچستان میں مداخلت کا اعتراف کیا ہے دوسری جانبافغانستان کی سرحدوں پر بھی تناؤ کی کیفیت ہے اور وہاں سے متواتر پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں ہوتی ہیں اور افغانستانکی طالبان حکومت اس کا کوئ تدارک نہیں کرتی جس کا مطلب ہے کہ ان دہشت گردوں کو بھی طالبان حکومت کی مکمل آشیر بادحاصل ہے ، اور افغانستان کی طرف سے کی دہائیوں سے پاکستان میں کارروائیاں کی جارہی ہیں بلکہ نوے فیصد دہشت گردانہحملوں کے پیچھے افغان دہشت گردوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے اور اس میں بھی بھارت کی گٹھ جوڑ ہی شامل ہوتی ہے یوں پاکستان کوپہلے ہی دو جانب سے سرحدوں پر مسائل تھے اب ایران کی طرف سے بھی تیسری سرحد پر تناؤ ہوگیا ہے ۔
ایران کے حملے کے دوسرے ہی روز پاکستانی فوج کی جانب سے ایرانی صوبہ سیستان میں بھرپور جوابی حملہ کیا گیا یہ حملہپاکستانی فوج کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو انتہائ سرعت میں اور انتہائ بھرپور انداز میں کیا گیا جہاں پاکستانی بلوچعلیحدگی پسند گروپوں کے کیمپس موجود تھے اور ان ہی کمیں گاہوں کو نشانہ بنایا گیا جس کا خود ایرنی حکومت نے اعتراف کیا کہہلاک ہونے والوں میں کوئ ایرانی نہیں تھا ! تو پھر یہ پاکستانی وہاں کیا کررہے تھے ؟ اور ایرانی حکومت کیوں انکے خلاف کوئکارروائی نہیں کرتی ؟
آپریشن مرگ بر سرمَچار ایک بہترین فوجی آپریش تھا جو پاکستان فوج کی جانب سے کیا گیا اور ایرانی حکومت اور دوسری قوتوں کوبھی بتایا گیا کہ پاکستان کو کمزور نہ سمجھا جائے ، ایران اب ایسا کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا ۔
بھارت خطے میں پولیس مین کا کردار نبھانا چاہتا ہے اور چائنہ کے ہوتے ہوئے تو یہ ناممکن ہے دوسری جانب ایران بھی اپنی طاقتدکھانا چاہ رہا تھا مگر ایسا ہو نہ سکا اور پاکستان نے نے چند ہی گھنٹوں میں ایران کی یہ خام خیالی دور کردی کہ ایسا کبھیسوچنا بھی نہیں ،ایران کی موجودہ حالت دیکھتے ہوئے یہ بہت حیران کن بات ہے کہ اس نے ایک ایسا ایڈونچر کیا جو اسے ان حالاتمیں اسکے لئے مناسب نہیں تھا ، ایران نے اپنے لئے خود مصائب پیدا کئے ہوئے ہیں اور وہ بہ یک وقت خطہ میں سعودی عرب ، اسرائیلاور عراق سے مخالفت لیا ہوا ہے وہیں دوسری جانب یمن ، شام اور لبنان میں بھی اور اب فلسطینی علاقوں میں بھی اپنا منفی کردارادا کررہا ہے ۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں ایران کے پیچھے بہت عرصہ سے ہیں اور کوئ بعید نہیں کہ اب یمن کے بعد ایران پر بھیکسی وقت حملہ کردیا جائے ۔
پاکستان نے فوری طور پر اپنے سفارت کار اور سفارتی عملہ ایران سے واپس بلوالیا تھا اور ایران کے سفیر کو پاکستان چھوڑنے کاکہہ دیا تھا اور ایسا ایران و پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ سفارت کار واپس بلوالیے گئے ہوں ۔ مگر پاکستان نے آج ہیایرانی وزیر خارجہ کو پاکستان کے دورے کی دعوت دیکر اپنی بردباری کا ثبوت دیا ہے ، اور اب گیند ایران کے کورٹ میں ہے لیکن یہبات سو فیصد طے ہے کہ ان سب کے پیچھے بھارت کا ہی ہاتھ تھا۔ جو پہلے ہی افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا تھااور اب ایران کو بھی شامل کرلیا اور یوں پاکستان کے خلاف ایک تکون کی صورت بن گئ ہے ،
پاکستان سے ہر سال ہزاروں شعیہ زائرین بلوچستان کے راستے اور دوسرے راستوں سے ایران زیارت کے لئے جاتے ہیں اور کبھی کوئایسا مسلہء درپیش نہیں آیا ، دونوں جانب ہمشہ بھائ چارگی رہی حالانکہ اندرون خانہ پاکستان اور ایران کی کبھی بنی نہیں مگرصورتحال بھی کبھی خراب نہیں ہوئ ، مگر اس وقت دُنیا کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی وقت تیسری عالمی جنگ شروع ہوسکتی ہے ، روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے اور اب جرمنی نیٹو کی مدد سے روس پر حملہ کرنا چاہ رہا ہے ، پولینڈ اور دوسریسرحدوں پر انتہائ کشیدگی ہے ، روس کی سرحدیں افغانستان سے بھی ملتی ہیں تو اب اس خطہ کو بھی جنگ کی جانب دھکیلاجارہا ہے ، عرب خطہ پہلے ہی جنگ کی حالت میں ہے ، بحیرہ احمر ، بحیرہ عدن میں متواتر پانی کے جہازوں پر حملے ہورہے ہیں اوردنیا کی پچاس فیصد تجارت رُکی ہوئی ہے اور مہنگائی کا ایک طوفان دنیا کی جانب منہ کھولے کھڑا ہے ، امریکہ اور برطانیہ نے بھییمن پر حملہ کیا ہوا ہے ، اسرائیل فلسطین جنگ اب لبنان تک پھیل چکی ہے ۔
ایسے وقت میں ایران نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو اس کا بہت بُرا حال ہوگا اور وہ بھارت کو اپنا خیر خواہ سمجھ کر ایک فاش غلطیکررہا ہے ، بھارت کو خود چائنہ کی جانب سے مزاحمت کا سامنہ ہے اور مالدیپ نے بھی بھارت کو الٹی میٹم دیا ہوا ہے کہ فوراً اپنیفوجیں یہاں سے نکالے ، افغانستان میں شدت پسندوں کی حکومت ہے اور وہ صرف پیسوں کی خاطر پاکستان کو کسی بھی حد تکنقصان پہنچاسکتے ہیں اور اسے بھی ہمیشہ سے بھارت کی ہی آشیر باد حاصل رہی ہے ، اب پاکستان کے چار سرحدوں میں سے تینسرحدوں پر ٹینشن ہے اور بھارت ، افغانستان اور اب ایران نے اس میں شامل ہوکر پاکستان کے خلاف ایک تکون بنالیا ہے ۔
ایران میں بھی شدت پسندوں کی ہی حکومت ہے جسے ایران کے نوجوان بالکل پسند نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں مانتے ہیں اور ایران کیایک بہت بڑی آبادی کا حصہ اپنی شدت اور قدامت پسند حکومت کو پسند نہیں کرتی ۔
موجودہ حالات میں پاکستان کی عوام ، تمام سیاسی و مزہبی جماعتیں اور تمام مکتبہ فکر کے لوگ مکمل طور پر اپنی فوج کے ساتھہیں۔ ۔ پاکستان پائندہ باد