481

کراچی کِرچی کِر چی       

آج جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی ( سندھ حکومت ) کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ، جماعت اسلامی کا اکیس روزہ دھرناختم ہوا ! جماعت اسلامی نے کراچی میں کراچی کے حقوق کے لئے بالخصوص بلدیاتی ایکٹ کے خلاف دھرنا دیا ہوا تھا جو بالآخراختتام پزیر ہوا ، سوشل میڈیا پر مبارک بادیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ جماعت اسلامی نے کراچی کے لئے جنگ جیت لی ۔ یہاں یہ باتبتانی ضروری ہے کہ جماعت اسلامی کے پاس صرف ایک نشست ہے تو پھر سندھ حکومت نے گُھٹنے کیسے ٹیک دئے ؟ دوسری بات یہکہ جماعت اسلامی کے پہلے بھی دو کراچی کے مئیرز رہ چکے ہیں پہلے عبدالستار افغانی اور بعد میں نعمت اللہ ، تو انہوں نے کراچیبلدیہ کے لئے کیا اقدامات اُٹھائے تھے ؟ کون سے قوانین بنائے تھے ؟ یہ دھرنا جماعت اسلامی نے نہیں دیا تھا بلکہ پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد اور پُشت پناہی پر دیا گیا تھا ، معاہدہ توپہلے دن ہی طے تھا دھرنا تو صرف ایک کھیل اور ڈرامہ تھا ! جماعت اسلامی کو کراچی میں آگے لایا جارہا ہے جو کبھی 1947 سےکبھی تین چار نشستوں سے آگے نہیں بڑھی اچانک اسے کراچی کا دُکھ درد اٹھنے لگا ! اس جماعت نے 48-1947 سے 1986 تکاربوں روپے کی قربانی کی کھالیں تو جمع کیں ، کراچی سے صوبائ اور قومی نشستیں بھی حاصل کیں اور مئیر شپ بھی حاصلکی ، کونسلرز بھی بنے مگر کبھی بھی عوام میں نظر نہیں آئے نہ ہی جیتنے کے بعد امیدواروں کا کبھی دیدار ہوا کہ آخر جنہیں ہم نےووٹ دئے تھے وہ تھے کون ؟ صرف اپنی جماعت کے لوگوں اور ہمدردوں کے ہی کام کئے عام لوگوں کو تو کبھی انکی موجودگی کا پتہہی نہیں چلا ، قربانی کی کھالوں کے پیسے کہاں گئے ، ان سے کبھی کسی نے نہیں پوچھا ! ہم پیچھے کی طرف چلتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ آج یہ دھرنا اور معاہدہ کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا ؟ ایم کیو ایم فوج کی آشیر باد سے بنی اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ضیاءالحق نے سندھ کے شہری علاقوں سے پیپلزپارٹی کا زور توڑنے کے لئے ایم کیو ایم پر ہاتھ رکھا مگر جلد ہی ایم کیو ایم کو بے پناہ کامیابیاں اور شہرت ملی اور وہ کراچی کی بلاشرکت غیرے واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھری ، اب نہ ایم کیو ایم کو فوج کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی سے الحاق ۔ وہ کراچیاور سندھ کے شہری علاقوں میں کلین سوئپ کرنے لگی ، جب ایک سیاسی جماعت اتنی کامیابیاں سمیٹنے لگے تو لا محالہ لوگ جوقدر جوق اس میں شامل ہونے لگتے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں ایم کیو ایم میں لوگ شامل ہوئے کہ اندازہ نہیں ہو پارہا تھا کہ کوناچھا ہے اور کون بُرا ؟ شروع میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے سیاست کی تو دیگر سیاسی جماعتوں نے لسانیت کا شور مچاناشروع کردیا ، حالانکہ پاکستان میں درجنوں قومیت کے نام پر سیاسی جماعتیں ہیں ان پر کسی کو کبھی اعتراض نہیں ہوا ، ایم کیو ایمبننے کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ہمیں اندازہ ہوگیا کہ پاکستان کی دیگر قومیں مہاجروں سے کس قدر نفرت کرتی ہیں اور وہ لوگ بھینفرت کرتے ہیں جو کبھی نہ کراچی آئے نہ کسی اور سندھ کے شہر ، ایم کیو ایم نے نجومی دھارے میں شامل ہونے کے لئے اپنیجماعت کا نام تبدیل کرلیا اور مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ ہوگئ مگر یہ تبدیلی بھی کسی کو ہضم نہیں ہوئ اور انپر ملک دشمنی اور غداری کی الزامات لگنے شروع ہوگئے ، جناح پور کے نقشوں کا تماشہ کھڑا کیا گیا جو بعد میں بریگیڈیئر امتیازنے نیشنل ٹی وی چینلز پر بارہا بتایا کہ سب الزامات تھے اور جھوٹ کا پلندہ تھے ، نوّے کی دہائ کے اوائل میں ہی بانئ ایم کیو ایم کواندازہ ہوگیا کہ فوج اپنا کھیل کھیلنے جارہی ہے تو لندن چلے گئے اور وہاں سیاسی پناہ حاصل کرلی اور ان کا اندازہ اس وقتصحیح ثابت ہوا جب جون ۱۹۹۲ میں آفاق احمد اور عامر خان کو اینٹیلی جینس ایجنسیز بزور طاقت کراچی پر چڑھائ کرانے لے آئیںاور اس وقت سب نے دیکھا کہ یہ لوگ فوج کے ٹرک اور ٹینکوں پر بیٹھ کر لانڈھی آئے تھے اور کراچی کو خون میں نہلانا چاہتے تھےاور فوج کا کھیل ہی یہی تھا کہ مہاجر کو مہاجر سے ہی لڑا دیا جائے ، اس آپریشن میں ہزاروں نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیاگیا اور سینکڑوں کو لاپتہ ، مگر چار پانچ سال بعد ایم کیو ایم ایک بار پھر پوری طاقت کے ساتھ ابھری ، ۱۹۹۷ کے الیکشن میں ایکبار پھر کلین سوئپ کیا ، ایک آدھ بار الیکشن کا اور بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو بھیک میں جماعت اسلامی کو کراچی سےجزوی کامیابی حاصل ہوئ ، مشرف کے دور میں کراچی میں خوشحالی اور مکلمل امن رہا مگر جونہی نواز شریف آیا اس نے دوبارہکراچی پر چڑھائ کرادی ، دونوں آپریشنز میں پیپلز پارٹی بھئ پیش پیش رہی حالانکہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ اندرون سندھ تو دورکی بات کراچی مکّے علاقہ لیاری میں دہشت گردوں کا گروہ کون چلا رہا تھا ، مگر جب بات مہاجر اور کراچی کی ہو تو سب کو سانپسُونگھ جاتا ہے اور بے غیرت میڈیا اور نام نہاد صحافی خاموش ہوجاتے ہیں ۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اور دیگر سیاسی جماعتوںکو بس ایک غلطی کی تلاش تھی جو الطاف حسین نے اپنی تقریر میں کی اور پاکستان کے خلاف نعرہ لگادیا ، بس اس ہی کی تلاشتھی ، رینجرز نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ہر اردو بولنے والے کو نفرت کا نشانہ بنانا شروع کردیا ، شروع شروع میں اُٹھاؤ قتل کرو لاش سڑک پرپھینکو کرتے رہے جب لوگوں میں رینجرز کا خوف بیٹھ گیا تو اب انہوں نے اس کو دھندہ بنالیا اور کسی بھی نوجوان کو آٹھا کر لےجاتے اور لاکھوں کروڑوں کی رشوت طلب کرنے لگے ورنہ لاش وصول کرنے کا کہتے ، لوگ اپنا گھر کاروبار بیچ کر ان کی جیبیں بھرتےرہے اور بھر رہے ہیں ، آہستہ کراچی میں کاروبار جمانا شروع کردیا اور کیا شادی ہال ، اسکول ، پیٹرول پمپس ، اینٹوں کے بھٹے حتیٰکہ آپ کا پانی آپ کو ہی بیچنا شروع کردیا جو ہنوز جاری ہے ، فوج نے اپنا کام کرنے کے بعد کراچی کو افغانستان کی طرح لاوارث رینجرز اور سندھیوں پر چھوڑ دیا جو بھوکے کُتّوں کی طرح کراچیپر چڑھ دوڑے ، دو آپریشنز ، کوٹہ سسٹم ، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں ایسے مسائل پر جماعت اسلامی نے کبھی لب کشائ نہیںکی تو اچانک کراچی کے مروڑ کیسے اُٹھ گئے ؟ ٹنڈو الہہٰ یار کا حالیہ واقعہ ہوا اس پر کیوں نہیں بھونکے ؟ کراچی میں جئے سندھ کی ریلیاں نکلتی رہیں اور ابھی دو دن پہلے فوجکی نگرانی میں جئے سندھ نے اندرون سندھ ریلیاں نکالیں اور کھلے عام فوج کے سامنے نہ کھپے نہ کھپے پاکستان نہ کھپے کے نعرےلگاتے رہے مگر وہ نہ غدّار ہیں نہ ان سے کوئ خطرہ ، اس کے بعد ایک وڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں قادر مگسی سندھی میں کہہ رہاہے کہ مہاجروں کا وہ حال کرینگے جو 1988 میں پکا قلعہ حیدر آباد میں کیا تھا یعنی تین سو لوگوں کے قتل کا اعتراف کررہا ہے مگرکسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگی ، نہ جماعت اسلامی بے کوئ نوٹس لیا نہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ، دوسری وڈیووائرل ہوتی ہے جس میں وزیرستان میں کھڑے منظور پشتون فرمارہے ہیں کہ کراچی کی چابی میری جیب میں ہے جب چاہے اسے بندکرادیں ، یہ وہی منظور پشتون ہے جو پاکستان کے خلاف نعرے لگاتا رہا ہے ۔ ایم کیو ایم کو ختم کرنے اور اسکی آڑ میں پورے کراچی بالخصوص اردو اسپیکنگ کو دیوار سے لگانے کا عمل شروع کیا گیا ، رینجرزاور پولیس کمائ اور دھندوں میں لگ گئ اور پیپلز پارٹی جسے اب اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی حکومت اسے ملنا اب بہتمشکل ہے اور سوائے سندھ کے اسکے ہاتھ میں کچھ نہی۔ تو اس نے کراچی کو اپنا نشانہ بنانا شروع کردیا اور پیپلز پارٹی کیسیاست کا شروع سے وطیرہ رہا ہے کہ لوٹو کھسوٹو اور مال بناؤ تو کراچی تو سونے کی چڑیا ہے ، جہاں پچھلے الیکشن میںاسٹیبلشمنٹ نے چودہ سیٹیں پلیٹ میں رکھ کر پی ٹی آئ کو دے دی تھیں ، جہاں مردوم شماری دہائیوں سے کبھی صحیح شمار نہیںکی گئ اور نہ کبھی کی جائے گی ، تو پیپلز پارٹی نے تمام سرکاری اداروں میں اور محکمہ پولیس میں اندرون سندھ سے اپنے سندھیجیالے بھرتی کرنے شروع کردئے اور کراچی کو یرغمال بنالیا اور مقامی نوجوانوں پر نوکریوں کے دروازے بند کردئے چاہے وہ جماعتاسلامی کا ورکر ہو یا ایم کیو ایم کا ہمدرد اس سے کوئ فرق نہیں ہڑتا اس کا جُرم صرف اردو بولنا اور تعلق کراچی سے ہونا ہے ۔ جماعت اسلامی نے اکیس روز سے دھرنا دیا ہوا تھا ، خود پیپلز پارٹی اور جئے سندھ کراچی میں ہی ریلیاں نکالتے رہے ہیں حتیٰ کہپاکستان کے خلاف کھلے عام نعرے بھی لگتے رہے مگر کسی کو کوئ فرق نہیں پڑا ، اس ہی دوران بلدیاتی کالے قانون کے خلاف ایم کیو ایم نے ایک ریلی نکالی تو پورے سندھ کی سرکاری مشینری حرکت میں آگئ ، اوردُنیا نے دیکھا کہ کس طرح عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں پر سندھ پولیس نے بھوکے بھیڑیوں کی طرح ان نہتے لوگوں پر لشکر کشائ کیاور ظلم کیا اور ایک نوجوان کو قتل بھی کردیا ، کیا کسی کو احساس ہوا ؟ کسی نے اس بات کے خلاف شور مچایا ؟ سیدھی سی ایک وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہی نہیں کہ کسی بھی طرح ایم کیو ایم دوبارہ سر اُٹھا سکے ( اور یہ انکی بُھول ہے) کیونکہ انہیں خوف ہے کہ کراچی ان کا ہی ہے کہیں دوبارہ ان لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائے ۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے بلکہ انتہائ قابل غور ہے کس دن کراچی میں ایم کیو ایم کی ریلی پر چڑھائ کی گئ اس ہی دن ٹی پر ایکچھوٹی اور انتہائی سرسری سی چند سیکنڈز کی خبر چلی کہ بلوچستان کے علاقے “ کیچ “ میں دہشت گردوں کے حملے میں پاک فوجکے دس جوان ہلاک ہوگئے ! سوچیں دس فوجی ہلاک ہوگئے اور چاند سیکنڈز کی خبر ؟؟؟ اگر یہ کراچی میں ہوجاتا تو سوچیں کیا چاندسیکنڈز کی خبر چل سکتی تھی ؟ نہیں بلکہ پورا کراچی قاتل اور دہشت گرد ہوتا اور ہزاروں قتل ہوتے ہزاروں لاپتہ اور ہزاروان گرفتار ،غدّار اور دہشت گرد الگ ! یہ تو صرف اس دن کی خبر بھی تو جو “ کیچ “ سے آئ تھی اور میڈیا بھی پالتو کُتّے کی طرح صرف دُم ہلاکت چُپ رہا اور اسکے بعدکوئ خبر نہیں دی ، اس طرح کے واقعات پر روز بلوچستان میں کئ جگہ رونما ہوتے ہیں مگر فوج چاہتی ہی نہیں کہ یہ خبریں چلیں اوران کی سُبکی ہو ، بلوچستان نہ انکے کنٹرول میں ہے اور نہ ان کے ہاتھ میں ، یہ کراچی نہیں ہے کہ جہاں چڑھائ کی اور کوئ کچھنہیں بولا اور مزے سے رینجرز کے حوالے کیا اور کامیابیوں کے ڈھول پیٹے گئے ، ابھی پچھلے دنوں کالعدم دہشت گرد تنظیم “ تحریک لبیک پاکستان “ نے ریلی کے نام پر پورا پاکستان یرغمال بنالیا اور درجنوں پولیسوالوں کو قتل کیا اور اربوں روپے کی املاک نظر آتش کردیں اور ان پر آپریشن کی بجائے انکے آگے گھُٹنے ٹیکے گئے اور خود چیف آفآرمی اسٹاف نے ان سے معاہدہ کیا اور ان پر لگی پابندیاں بھی ہٹادی گئیں اور انکے گرفتار دہشت گرد ایک ہی رات میں چھوڑ دئےگئے ، پورا پاکستان کراچی میں رونما بارہ مئ کے واقعہ کو روتا ہے اور زمہ دار ایک ہی پارٹی کو قرار دیتا ہے حالانکہ سینکڑوں وڈیوز اورثبوت موجود ہیں کہ اس میں پیپلز پارٹی اور ای این پی شامل تھی ، لاڑکانہ کی بے نظیر کا قتل پنجاب کے شہر راولپنڈی میں ہوا اور جلایا اور لُوٹا گیا پورا کراچی ! کیا کسی نے آج تک اس پر آواز اُٹھائ؟ کیا حافظ نعیم الرحمن نے کبھی اس واقعہ کے خلاف ریلی نکالی ؟ وہ نکالیں گے بھی نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ ہےان کا اور پیپلز پارٹی نے اب اشارہ دیا ہے کہ کراچی میں میدان ( ان کی نظر میں ) صاف ہے آپ ہاتھ مار لیں ، سابقہ مئیر کراچیوسیم اختر کو بے اختیار ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ دیکھو یہ لوگ کچھ نہیں کرسکتے کراچی کا آپ اب کسی اور کو منتخب کریں ! اورپیپلز پارٹی کو پتہ ہے کہ کراچی میں تو انکی کوئ جگہ نہیں ہے تو اس نے جماعت اسلامی کا انتخاب کیا اور ان سے سازش کی کہاگلا مئیر آپ کا ہوگا ، اور یہ دھرنا جو کہ ایک سازش تھی ان دونوں پارٹیوں کی ، دیا گیا اور پہلے سے طے شدہ معاہدہ کے تحت یہثابت کرنے کی کوشش کی گئ کہ جماعت اسلامی کے آگے سندھ گورنمنٹ نے گُھٹنے ٹیک دئے اور کراچی کی غمگسار اس وقت صرفجماعت اسلامی ہی ہے حالانکہ ان کا پچھلا ستّر سالہ ریکارڈ اُٹھا کر دیکھیں تو یہ صرف ایک بلیک میلر جماعت رہی ہے اسے نہ پہلےکبھی کراچی کا غم تھا اور نہ اب ہے اگر تھا یا ہے تو اکیس روز میں گُھٹنے ٹکوانے والوں نے کوٹہ سسٹم پر گُھٹنے کیوں نہیں ٹکوائے ؟جیسے بارش کے بعد مینڈک نکل آتے ہیں ایسے ہی دو آپریشنز کے بعد جماعت اسلامی بھی کراچی میں نکل آئی ہے جو ماضی میںکراچی کے لوگوں کی اربوں روپے کی قربانی کی کھالیں ہڑپ چکی ہے ، جو ماضی میں کراچی میں دو تین سیٹیں لینے کے بعد گدھےکے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوتی رہی ہے ، جو تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کی موجد ہے ، جو اپنے کارکنوں کو روس افغانجنگ میں جہاد کی آڑ میں اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دلواتی رہی ہے اب دوبارہ کراچی میں جلوہ افروزی کے لئے آگئ ہے ، اگر آپمستقبل میں انہیں ووٹ دینے کا سوچ رہیں تو برائے مہربانی ان کے ماضی پر ایک دفعہ ضرور نظر ڈال لیجئے گا اور انکی تاریخضرور پڑھ لیں تو آپ کا ایک قیمتی ووٹ بچ جائے گا ۔

بشکریہ اردو کالمز