۱۹۸۲ میں بمبئ ( انڈیا ) میں ہاکی ورلڈ کپ ہوا تھا جو پاکستان نے مغربی جرمنی کو فائنل میں ہرا کر تیسری دفعہ اور مسلسل دوسری دفعہ جیتا تھا اور ورلڈ چیمپئن کا تاج اپنے سروں پر سجایا تھا ، اس وقت کرکٹ کا عوام میں اتنا جوش و خروش نہیں ہوا کرتا تھا ، ہاکی پاکستان بھر میں دیکھی جاتی تھی اور پورے جوش و خروش سے ،
اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں میں حنیف خان بھی تھے اور اس وقت ٹی وی پر میچز براہ راست نشر ہورہے تھے اور پورا پاکستان ان میچز کو دیکھا کرتا تھا ، پی ٹی وی ان میچز کی کوریج کررہا تھا اور کمینٹیٹرز تھے مُنیر ڈار ، ایس ایم نقی اور خالد محمود ۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں پاکستان کے تمام میچز کے دوران جو اس وقت ستّر منٹ کا ہوا کرتا تھا یہ کمینٹیٹرز تقریباً چالیس سے پچاس دفعہ حلق پھاڑ پھاڑ کر چیختے کہ “ اور حنیف خان نے ایک اور موقع ضائع کردیا “ اور تمام میچز میں یہ سلسلہ جاری رہا اور ہم سیدھے سادے پاکستانی بھی یہی سمجھتے رہے کہ واقعی حنیف خان نے درجنوں موقع ضائع کردئے اور پورے ٹورنامنٹ میں تقریباً سو سے زائد تو گول کرنے کے سُنہری مواقع ضائع کردئے ، مجھے وہ بھونڈی اور گندی آوازیں آج بھی یاد ہیں جنہیں صحیح سے اردو بھی بولنی نہیں آتی تھی وہ کمینٹری کرہے تھے
، پاکستان نے وہ ورلڈ کپ جیت لیا اور پورا پاکستان خوش تھا ،
ورلڈ کپ کے فوری بعد جونئیر ورلڈ کپ تھا ، مجھے یہ تو یاد نہیں کہ وہ کہاں تھا ؟ اس ٹورنامنٹ میں بھی یہی دونوں اصحاب کمینٹری کررہے تھے اور پاکستان کے ہر میچ میں انکے منہ سے کئ بار بے ساختہ نکل جاتا کہ “ اور حنیف خان نے ایک اور موقع ضائع کردیا “ حالانکہ ان میچز میں نہ حنیف خان موجود تھے نہ ان کا کوئ تعلق !
تو کیا اس وقت ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے تھا کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے ؟ کیا اس وقت کے پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کا کام نہیں تھا کہ اس پر سوال اُٹھاتے ؟
یہ تعصب کی انتہا تھی ، گندی بدبودار سیاست کی کھیلوں میں ابتدا تھی ، گوجر خان اور شیخو پورہ کو چھوڑ کر ایک کھلاڑی کراچی سے کیسے آگیا تھا اور جیسے چھا گیا تھا ؟ ہیرو سے زیرو بنانے کا یہ کون سا طریقہ تھا اور کیوں ؟ لازماً اس میں ہاکی بورڈ کے لوگ شامل تھے ۔ انہیں حنیف خان کی شہرت برداشت نہیں ہورہی تھی اور ٹیم سے باہر کرنے کا کوئ جواز نہیں بن پارہا تھا تو یہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ، اس کے بعد ہاکی کا زوال بھی ہم نے دیکھا کہ کہاں سے کہاں ہاکی کا انجام پہچا ،
جرمنی ، انگلینڈ ، ہالینڈ ، انڈیا کو ناکوں چنے چبوانے والے ہاکی ٹیم اب ساؤتھ افریقہ اور کینڈا سے بھی بُری طرح ہار جاتی ہے ، اور ان ٹیموں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ مظبوط حریف سے سامنا تھا ، ہر ٹورنامنٹ کے بعد کہا جاتا ہے کہ ٹیم تشکیلِ نو کے مراحل سے گزر رہی ہے اور اگلے ٹورنامنٹ میں بہتر نتائج دینگے ، ہر بار ہاکی بورڈ کی نئ کمیٹی بنائ جاتی ہے ، نئے کوچز اور سکریٹریز آتے ہیں اور ان پر سابق کھلاڑیوں کی تنقید شروع ہوجاتی ہے کیونکہ بورڈ میں کوئ عہدہ جو نہیں ملتا کہ وہ بھی آتے اور دولت لوٹتے اور غیر مُلکی دورے کرتے ۔
ہاکی کا حال تو ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں اب یہ گندہ کھیل کرکٹ میں بھی شروع ہوگیا ہے بلکہ ہمیشہ سے ہی تھا مگر اب کُھلے بندوں ہورہا ہے ۔ ہاکی جیسا حال جلد ہی کرکٹ کا بھی ہونے والا ہے ۔ ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون ٹیم چوتھے پانچویں نمبر پر پہنچ چکی ہے اور ٹیسٹ اور ون ڈے کا نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے ،
کراچی کے کھلاڑیوں سے بلاجواز نفرت اور تعصب برتا جارہا ہے ، انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے ! کئ سال پہلے انگلینڈ ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر تھی اور پاکستان سے عرب امارات میں تیں ٹیسٹ میچز کی سیریز تھی اور اس سیریز میں پاکستان کے کوچ تھے محسن حسن خان ، یہ ٹیسٹ سیریز پاکستان نے تین - صفر سے جیت کر وائٹ واش کیا ، مگر ٹیم کے واپس آنے کے بعد فوراً ہی محسن خان کو کوچ کے عہدہ سے فارغ کردیا گیا اور غیر ملکی کوچ آگیا ، یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ جس کوچ کی کوچنگ میں پاکستان نے نمبر ون ٹیم کو وائٹ واش کیا اسے ہی فارغ کردیا گیا ، وہ بے چارہ چیختا چلّاتا رہ گیا مگر اس کی آواز کسی نہ سُنی ،
کچھ سالوں پہلے ورلڈ کپ تھا اور کپتان تھے مصباح الحق اور کوچ تھا یونس خان اور ٹورنامنٹ میں اوپنرز پہلے دو میچز میں مکمل ناکام ہورہے تھے اور ہر طرف سے شور اُٹھ رہا تھا کہ سرفراز احمد کو موقع دیا جائے مگر نفرت اور تعصب کا یہ حال تھا کہ کوچ صاحب فرمارہے تھے کہ مجھے نہیں پتہ کہ یہ بیٹنگ بھی کرسکتا ہے ؟ واہ کیا کوچ تھے ؟ بحر حال بحالت مجبوری سرفراز کو ساؤتھ افریقہ کے خلاف اوپنر بھیجا گیا اور اس نے 49 رنز بنائے اور وہ میچ جیت گئے اور اگلے ہی میچ میں سرفراز احمد نے سینچری داغ دی ۔
مصباح کی ریٹائرمنٹ کے بعد سرفراز احمد کو کپتانی سونپ دی گئ ، سرفراز احمد کی کپتانی میں پاکستان نے مسلسل گیارہ ٹی ٹوئنٹی سیریز اپنے نام کیں اور پاکستان ایک لمبے عرصہ تک پہلے نمبر پر براجمان رہی ، سرفراز آ احمد کی ہی کپتانی میں پاکستان نے نئے کھلاڑیوں کے ساٹھ پہلی دفعہ چیمپئنز ٹرافی جیتی ،
پھر ورلڈ کپ آیا اور اس سے پہلے انضمام الحق کو چیف سلیکٹر لگادیا گیا اور اس نے آتے ہی اپنے بھتیجے امام الحق کو سلیکٹ کرلیا اور مسلسل پرفارمنس دینے والے فواد عالم کو رد کردیا اور کہا کہ اس کی تیکنک ٹھیک نہیں ہے اور اس کی حمایت رمیز راجہ نے بھی کی ،
ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان کا دورہء آسٹریلیا تھا جہاں اسے پانچ ون ڈے میچز کھیلنے تھے اور پاکستان کے پاس پریکٹس کا بہترین موقع تھا مگر یہ کیا ؟ کپتان کو ہی ڈراپ کردیا اور کہا کہ انہیں آرام دیا جارہا ہے اور سرفراز احمد بولتا رہ گیا کہ انہوں نے آرام کی کوئ بات نہیں کی مگر انہیں اس دورہ سے ڈراپ کردیا گیا اور شعیب ملک کو کپتان بناکر بھیجا گیا کہ اگر سیریز جیت گئے تو سرفراز کا پتہ صاف کیا جائے اور شعیب ملک کو ورلڈ کپ کے لئے کپتان مقرر کیا جائے ، رضوان کو وکٹ کیپر کے حیثیت سے بھیجا گیا ، پاکستان یہ سیریز پانچ ۔ صفر سے ہار گیا اس سیریز میں رضوان نے ایک سینچری بنائ اور اس سینچری کے بناتے ہی محمد رضوان کے متنازع بیانات آنے شروع ہوگئے ،
ورلڈ کپ شروع ہوا اور پہلا میچ ہارنے کے بعد پاکستان مسلسل چار میچز جیت گیا مگر انڈیا جان بوجھ کر انگلینڈ کے ہاتھوں ہار گیا اور پاکستان کو سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر کردیا ،
چیمپئنز ٹرافی میں حسن علی نے بحیثیتر بولر بہترین کارکردگی دکھائ تھی تو ان کے تیور ہی بدل گئے وہ ایک میچ کے دوران کپتان سرفراز احمد سے ہی الجھ گئے اور بدتمیزی شروع کردی مگر نہ تو بورڈ نے کو سرزنش کی اور نہ کوئ باز پُرس ،
اب مصباح الحق کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ بنادیا گیا ، پاکستان کو سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز کھیلنی تھی
پاکستان نے سری لنکا کو تینوں ون ڈے میچز میں شکست دی اور بدقسمتی سے پاکستان دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز ہار گیا ، بس مصباح الحق جو اپنی کپتانی میں سرفراز کو ورلڈ کپ میں موقع ہی نہیں دینا چاہتا تھا اور مسلسل ناکام اوپنر ناصر جمشید کو موقع دئے جارہا تھا اب وہ کیسے برداشت کرتا کہ کراچی کا لڑکا کپتان رہے ، اس سیریز کے فوراً بعد ہی ٹی ٹوئنٹی میچز کی شکست کو جواز بناکر سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹادیا گیا اور بابر اعظم کو کپتان مقرر کردیا اور بعد میں تینوں فارمیٹس میں اسے کپتان مقرر کردیا ، سرفراز احمد کو کپتانی سے تو ہاتھ دھونا ہی پڑا بحیثیت کھلاڑی بھی سلیکٹ نہیں کیا جارہا ، کچھ سیریز میں اسے سلیکٹ تو کیا جاتا ہے مگر پوری سیریز میں باہر بیٹھ کر میچز دیکھتا ہے یا کھلاڑیوں کو پانی پلاتا رہتا ہے یا ان کے جوتے اُٹھاتا رہتا ہے ، اس طرح کی بے عزتی ایک کپتان کی نہیں ہونی چاہئے اور سرفراز کو بھی اس وقت عزت کے ساتھ ریٹائرمنٹ کا اعلان کردینا چاہئے ورنہ جوتے ہی اُٹھاتے رہیں ،
فواد عالم کا ماضی بھی دیکھا اور حال بھی ، اس حال تک پہنچتے پہنچتے اک عمر تمام کردی اور عروج کے دس سال تعصب کی نظر ہوگئے ، مگر اس نے تو اپنے آپ کو منوالیا اور ثابت کردیا مگر سرفراز احمد کو یہ موقع نہیں سکتا کیونکہ آپ کرکٹ کے “ حنیف خان “ ہو
حالیہ دنوں پاکستان اور ساؤتھ افریقہ کے میچز چل رہے ہیں ، اس سیریز میں بھی سرفراز ڈگ آؤٹ میں بیٹھا بے عزت ہورہا ہے اور اس میں شک نہیں کہ اس پوری سیریز میں محمد رضوان نے بحیثیت وکٹ کیپر بیٹسمین اپنا بہترین کھیل پیش کیا ہے ، پہلے ٹی ٹوئنٹی میں سینچری اسکور کی تو محمد حفیظ جو شکل سے ہی ایک تعصبی انسان لگتا ہے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ ٹوئٹ کیا “ محمد رضوان تم نمبر ون وکٹ کیپر بیٹسمین ہو اور مجھے حیرت ہے کہ تمہیں نمبر ون ثابت کرنے کے لئے اتنا عرصہ کیوں لگا ؟
بظاہر پڑھنے میں تو اس میں کوئ ایسی قابل اعتراض بات نہیں ہے مگر کرکٹ اور کھلاڑیوں کو قریب سے جاننے والوں نے اسے خوب اچھی طرح جان لیا اور سرفراز احمد نے خاص طور پر کیونکہ حفیظ کا اشارہ سرفراز کی طرف ہی تھا اور اس کی تضحیک کی تھی ، جواباً سرفراز نے ری ٹوئٹ کیا جو آپ سب کو ہی پتہ ہے ،
کیا ہم نے نیوز ی لینڈ میں اس ہی ٹیم کا حال نہیں دیکھا ؟ کیا ہم نے زمبابوے جیسی انتہائ کمزور ٹیم کے خالف ہوم سیریز میں پاکستان کی شکست نہیں دیکھی ؟ ہر شکست یا کسی بھی کھلاڑی کی مسلسل ناکامی پر تا کوچ یا چیف سلیکٹرز اپنا بیان داغ دیتے ہیں کہ کھلاڑیوں کو ایک یا دو سیریز کی ناکامی کے بعد بٹھادینا صحیح نہیں ہے انہیں پورہ موقع دینا چاہئے تو یہی چیز آپ نے فواد عالم کے ساتھ کیوں نہ کی ؟ کیوں اسے مسلسل پرفارمنس کے باوجود نظر انداز کرتے رہے ؟ کیوں سرفراز احمد کو صرف دو ٹی ٹوئنٹی میچز سے شکست کے بعد ہر قسم کی کرکٹ کے ہی دروازے بند کردئے ، کیوں اب بھی یہی شور مچ رہا ہے کہ
“ اور حنیف خان نے ایک اور موقع ضائع کردیا “