333

میاں زاہد ریاض  اور ماں جی!

کئی روز پہلے اپنے پیارے عزیز میاں زاہد ریاض کے ہاں بیٹھے ماں جی کی باتیں چھیڑ کر بیٹھے ہوئے تھے،وہ گھر میں نیا رنگ و روغن کرانے میں مصروف تھے اسی بابت باتیں چھڑی ہوئی تھیں۔ دعاؤں کی یہ آغوش آخری روزے ہم سے چھن گئی ماں جی کی موت سے چند روز قبل ہی تو ماں کا عالمی دن منایا گیا یہ گھاؤ میاں زاہد یا میاں شاہد ریاض کو نہیں مجھے لگا ہے 
ہر انسان کی کامرانیوں کے پیچھے اسکی  ماں کی طاقتور دعائیں ہوتی ہیں کیونکہ ماں کی دعاؤں  کا فیضان اولاد کو  طمانیت کی بانہوں میں سمیٹے رکھتا ہے میاں شاہد ریاض کی  ترقی دیکھ کر رشک آتا ہے اور انشاء اللہ عنقریب وہ انصاف کی ایک بڑی کرسی پر بیٹھنے والے ہیں انہوں نے ترقی کی جو منازل طے کی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ماں کے بارگاہ ربی میں اُٹھے اُن ہاتھوں کا اعجاز  ہے جو ایک عبادت گزار ماں  کسی جائے نماز پر بیٹھے بارگاہ، ایزدی میں پھیلاتی تھی۔ماں اپنی اولاد کو کبھی بھی دکھ نہیں پہنچنے دیتی، ماں کے شفیق ہاتھ اپنے بچوں کیلئے ہمیشہ خدا کے حضور ہی اٹھے رہتے ہیں۔ دعاؤں جیسی  ہستی کے بارے میں جو احترام و ادب،محبت و عشق اور جنوں کی حدوں کو پہنچی ہو کچھ لکھنے کیلئے الفاظ ڈھونڈنا اور پھر استعمال کرناکم از کم میرے لئے تو بہت مشکل کام ہے ماں کے لئے لکھنے بیٹھا تو بہت دیر تلک ایک جملہ ہی نہ بن پایا یہی سوچتا رہا کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم پھر جو ذہن میں آتا گیابلا تسلسل اسے تحریر کرتا چلا گیا دل بہت بوجھل ہو گیا اور آنکھ بھر آئی کیونکہ ماں ہی وہ ٹھنڈی چھاں ہے جس کے شفیق اور مہربان سائے تلے آکر ایسا لگتا ہے جیسے تپتی دوپہر میں سایہ مل گیا ہو اور ماں کی دعائیں ہی تو انسان کو کامیاب بناتی ہیں 
قارئین! 
سب مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں اورشاید ان کی دعائیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں گھر کی دہلیز پر نر قدم رکھتے ہوئے ٹھنڈک اور طمانیت کا احساس ماں کے وجود سے ہی تکمیل پاتا ہے اسی لئے ماں سے ٹو ٹ کر محبت کرنے والے کہتے ہیں کہ ماں وہ ہستی ہے جس کا نعم البدل نہیں، ماں ایک گھنے درخت کی مانند ہے جو مصائب کی تپتی تیز دھوپ میں اپنے تمام بچوں کو اپنی مامتا کے ٹھنڈے سائے تلے چھپا کے رکھتی ہے۔ ایسی محبت صرف ایک ماں ہی دے سکتی ہے۔ ساری عمر بھی اس کے نام کی جائے تو بھی حق ادا نہ ہو، اس کی ایک رات کا بدلہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں ماں کا ذکر آگیا سمجھ لینا چاہئے کہ ادب کا مقام آگیا۔ اللہ نے ماں کی ہستی کو یہ جان کر بنایا ہوگا کہ جب ایک ہارا ہوا انسان ناکامیوں سے تھک جائے تو ماں کی آغوش میں پناہ لے اور اپنے سارے رنج و الم، دکھ اور غم ماں کو کہہ سنائے اور جب ماں پیار سے اس کی پیشانی چومے تو اس کی تمام پریشانیاں اور اندیشے ختم ہوجائیں۔
یہ احساس ہی اولاد کو کرب میں مبتلا کر دیتا ہے کہ اس کیلئے شب و روز دعائیں مانگنے والی ہستی خاک نشین ہو چکی ہے اس کی آمد کی منتظر نگاہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بندہو چکی ہیں۔اُس روز میاں زاہد ریاض میرے ایک دوست کے ساتھ بیٹھے کہہ رہے تھے کہ ماں جی یہ مکان چھوڑنا نہیں چاہتی کیونکہ اس مکان کے ارد گرد اس کے سارے رشتے بستے ہیں میاں زاہد ریاض شاید جانتے تھے کہ محبت کی ابتداء ا ور انتہاء کو دنیا میں ناپنے کا اگر کوئی پیمانہ ہے  تو وہ صرف اور صرف ایک لفظ میں مل سکتا ہے اور وہ لفظ ہے ''ماں ''۔ دنیا میں ماں کے سوا کوئی سچا اور مخلص رشتہ نہیں ہے۔ ماں ایک معتبر، شفیق اور بے لوث محبت کرنے والی عظیم ترین ہستی ہے، جس کی شفقت اور محبت کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر ہم تمام دنیا کے دکھ درد بھول جاتے ہیں۔ 
تعزیت ایک عمل ہے، نیک عمل۔ کسی کے دُکھ میں اُسکا ساتھ نبھانا، اُسکو تنہائی کا احساس نہ ہونے دینا۔ جب ہمارے کسی دوست، عزیز کے ہاں کسی پیارے کی  وفات کا صدمہ جانکاہ ہو جائے ہم تعزیت کرنا ایک رسم سمجھتے ہیں، جبکہ یہ رسم نہیں، یہ ایک انسانی رشتوں کے مابین فرض، میرے نزدیک یہ نماز جنازہ کی طرح اہم ہے۔ نماز جنازہ مرحوم کی مغفرت کے لئے ہوتا ہے۔ تعزیت سوگواران کے لئے ہوتی ہے۔ کیونکہ وقتی طور پر اُنکی آدھی مرگ (موت) واقع ہو چکی ہوتی ہے۔ ہمارا دلاسہ لواحقین کو زندگی کی جانب لاتاہے۔ اُن کو مایوس اور پریشان حال رہنے کی بجائے حوصلہ وصبر کی تلقین اس انداز سے کرنا مسلمانی فریضہ ہے جیسے اس کا اپنا ہی کوئی عزیز ہمیشہ کیلئے جدا ہوا ہو تعزیت کا عمل در اصل ہمیں موت کی حقیقت کو تسلیم کراتا ہے 
والدین کی موت ہم پر بڑا گہرا صدمہ چھوڑتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماں ایک سایہ ہوتی ہے۔ انسان چاہے عمر کے جس حصہ میں موجود ہو، جب ماں جیسی ہستی رخصت ہوتی ہے تو انسان پر سے بے شمار دُعاوں کا سایہ بھی رُخصت ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے ماں کی رحلت کے بعد انسان دعاؤں کے حصار سے محروم ہوجاتا ہے۔ یہ وہی جان سکتا ہے۔ جس کی پیاری ہستی اسے ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ کر ملک عدم سدھار گئی ہو میاں زاہد ریاض اور میاں شاہد ریاض کیلئے بارگاہ ربالعزت میں صبر جمیل کی استدعا ہے علاوہ ازیں وہ تمام دوست جن کی ٹھنڈی چھاں موجودہے وہ اسکی ٹھنڈک کو اپنی روحوں میں اتاریں اور جن کی مائیں آسودہ خاک ہیں وہ ان سے روحانی فیض حاصل کریں

بشکریہ اردو کالمز