602

پروفیسر مہر ظہور عالم تھند سے ایک  ملاقات 

پروفیسر مہر ظہور عالم تھند ایک سکالر ہیں ان سے اکثر ملکی حالات پر بحث ہوتی ہے ان سے اس سوال پر بحث ہوئی کہ موجودہ حکمران نہ تو عوامی رد عمل سے خائف نظر آتے ہیں اور نہ ایک مضبوط اپوزیشن کا انہیں کوئی خوف ہے پروفیسر مہر ظہورعالم تھندکا بڑا نپا تلا جواب تھا کہ موجودہ حکمران اس راز کو جان چکے ہیں کہ جب تک مقتدر حلقے  ان کے ساتھ ہیں، کوئی  بھی ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا. وہ جھوٹ کی قیمت جانتے ہیں. اکثریت انکے ہر جھوٹ پر خوش ہوتی ہے عوام موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اس کی ایک بڑی وجہ مہنگائی ہے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک محاذ کھڑا ہے ہیں  مگر انہیں اس کی پرواہ نہیں تاریخ میں آج وہ ایک مثال  بن چکے ہیں. پورا پاکستان واقف ہے کہ پچھلے ساڑھے تین برس میں کچھ بھی نہیں ہوا. حکومت کچھ کرنا بھی نہیں چاہتی میڈیا تک کنٹرولڈ ہے کہ ہر طرح کے نقصانات کے باوجود مہنگائی کی  لہر میں کوئی کمی نہیں ہے.
شکسپیر نے کہا تھا..دی شو مسٹ گو آن..اس لئے نہیں کہا تھا،کہ سیاست کے بعض خوفناک ڈرامہ باز اپنی اداکاری سے عوام کو گونگا اور بہرا بنا دیں -- آج ملک میں،حقیقت میں یہی تماشا ہو رہا ہے...ایک عریاں سیاسی رقص میں عوام کے جذبات کو سیدھے حب الوطنی سے جوڑ دیا گیا ہے.مجھے یاد ہے،2018کے انتخاب سے قبل یہی میڈیا تھا، جوموجودہ حکمران کا نام کسی ہیرو کے طور پر لیتا تھا. سیاست کو دانستہ   جرم اور مافیا کی علامت بنا دیا گیا مگر آج کی تاریخ میں بہت سے  نام ایسی بھی ہیں  جوبے لوث ملک کی مدد کر رہے ہیں...صنعتی،کاروباری اور بیوروکریسی  جو مہنگائی کے نام پر ٹرائیکا بنا چکے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے ہیرو ہو گئے.. جو بیوروکریٹ پاکستان  کی دولت کو لوٹنے میں دن بدن مصروف عمل ہیں، ان کے بارے میں پوچھنے والا کوئی نہیں.آپ چینلز پر تجزیہ نگاروں کی گفتگو سنیں تو  ایسا لگتا ہے جیسے سارا برین،واش کر دیا گیا ہو. حکمران  اس بات کو تسلیم کرانے میں لگے ہوئے ہیں کہ کہ ملک کے عوام کے لئے سارا  دن قطار میں آٹا لینے کیلئے کھڑا ہونے میں کیا برائی ہے؟ یہ رس ہمارے کانوں میں گھولنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکمران ہی ہمارے مسیحا ہیں.میرے شہر میں ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے دنیا کی سیر کی ہے.ہر جگہ پاکستان کا پرچم لہرایا ہے. کورونا کی جنگ میں پاکستان بہت آگے سہی مگر معاشی سطح پر  پاکستان کھوکھلا ہو چکا ہے. --.مزدور گٹرکھود کر دووقت کی فکر کرے گا یا بے روزگاری کی آندھی میں مرتا رہے گا؟مگر اب بھی  جذباتی تقریر وں سے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے.-تبدیلی  کا نام پھر سامنے آ گیا ہے. عمران نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ملک کی حالت نہ سدھری تو مجھے جو چاہے سزا دیجئے؟ بجلی کے بل جلانے اور ادا نہ کرنے کا بھاشن اس عوام کو سننے کو ملا؟ ریلوے تک بک چکا ہے مگر پرائیویٹ گاڑیوں میں سرکاری فیول جل رہا ہے. ایئر لائنزمیں  ایئر پورٹ بک گئے.بنکوں کا دیوالیہ نکل گیا. سرکاری محکموں  کا خدا ہی حافظ ہے. -مینار پاکستان پر ہونے والا واقعہ عوام کو لاقانونیت کی یاد دلا رہا ہے.وسیم اکرم پلس کی گڈ گورنس کا کمال اس ایک واقعہ سے واضح ہوگیا - عوام تو سزا انتخاب میں سناتی ہی ہم ایک ایسی کھائی میں گر چکے ہیں جس سے باہر نکلنے کی کوششیں نظر نہیں آتیں۔یہاں  تو حکومتیں خرید لی جاتی ہیں. الیکشنایک  کاروبارکی شکل اختیار کر چکا ہے.حالیہ سینٹ  الیکشن میں باقاعدہ ضمیر کی بولی لگی.کیا پاکستانی اس حقیقت کو بھول جائیں کہ ہر آنیوالے انتخاب میں کروڑوں کی رقم خرچ کی جاتی ہے؟ یہ سفید دھن ہے  یا کالا دھن؟ کروڑ وں انتخابات میں جھونک دینے  والاآج عوام کو سفید اور سیاہ کے فرق کو سمجھا رہا ہے
مہنگائی اس نہج پر پہنچ چکی کہ غریبوں کے حوصلے پست ہیں.بغاوت کا منظر ہے پھر بھی عوام اس نام کو لینے سے خوف کھا رہی ہے،جس نام نے اسے بے روز گاری کی دہلیز پر کھڑا رکھا ہے. معیشت کا جنازہ اٹھ چکا ہے.حکومت کو عوام سے کوئی سروکار  نہیں ہے.آہستہ آہستہ حکمت تمام اداروں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے..یعنی ٹریلر چل چکا فلم ابھی باقی ہے... ہم ایک ایسے دور میں آ گئے ہیں جہاں سوال کرنا گناہ ہے. سوال کرنا غدار ہونا ہے. سوال کرنا خود کو مصیبت میں ڈالنا ہے. سفید و سیاہ کا فرق مٹ  چکا ہے. تہذیب نے انسانی لباس کو کنارے کر دیا ہے.یہ فسطائی  تہذیب ہے جہاں جھوٹ پر خوش ہونا ہے. ملک کو برباد ہوتے ہوئے دیکھنا ہے مگر کہنا کچھ نہیں ہے.
اور مشکل یہ کہیہاں ہر حکمران نے اپنے لوگوں کو ایک ہی سبق سکھایا..دلیل اور منطق سے ملک  نہیں چلے گا.اپنی دلیل اور منطق سے کام چلاؤ.یہی دلیل میڈیا کو بھی گوارا ہوگی.معصوم عوام کو پاکستانیت کا انجکشن لگا دو..اور مستقل لگاتے رہو.اس سے اپوزیشن ہمیشہ ناکام ثابت  ہوگی..
ہم ایک ایسے پاگل خانے کا حصّہ ہیں،جہاں سے اچھا ہو کر نکلنے کی کوئی  تدبیر ممکن نہیں.جو پورے پاگل ہیں وہ مر جائیں گے.جو آدھے ادھورے پاگل بچیں گے،وہ  پورا پاگل ہونے اور مرنے کے لئے ابھی سے تیار ہو جائیں.

بشکریہ اردو کالمز