414

فلیڈ آفسیر اور بقاہِ شہر

کتے کے دانت، لڑکیوں کی مسکراہٹ اور سیاست دانوں کی تقریریں، تینوں چیزیں ہی ناقابل اعتبار ہیں کیونکہ کتا کسی بھی وقت کاٹ سکتا ہے، لڑکیاں عموماً نادان ہوتی ہیں اور سیاست دان کبھی بھی حالات و مفاد کے پیش نظر تقریر بدل سکتے ہیں. سیاست دانوں میں یہ بات بھی ہمیشہ سے ہی مشترک رہی ہے کہ جب ان کے پاس اقتدار نا ہو تو یہ بانٹتے ہیں اور اقتدار مل جائے تو مانگنا شروع کر دیتے ہیں. ویسے یہ ڈاکٹر یونس بٹ کی باتوں کا نچوڑ ہے.
میرے مطابق سانپ کے زہر، یتیم کی آہ اور سیاسی انتقام سے ہمیشہ بچ کر ہی رہنا چاہیے کیونکہ سانپ کے کاٹنے کی صورت میں اکثر موت واقع ہو جاتی ہے، مظلوم یتیم کی آہ کسی آفت سے کم نہیں گزرتی اور سیاسی انتقام میں ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے.
ایک دفع ایک فلیڈ آفیسر کے پاس ان کے ایک دوست تشریف لائے اور دوست نے آکر آفیسر صاحب سے سیلابی خطرے کے بارے دریافت کیا. آفیسر نے جواب دیا کہ "پانی خطرے کے نشان سے دو فٹ اوپر آ چکا ہے" یہ سنتے ہی دوست کے چہرے پر پریشانی کے اثرات ظاہر ہوئے لیکن آفیسر صاحب نے مزید کہا کہ "فکر کی کوئی بات نہیں ہم نے نشان کو پانی سے مزید دو فٹ بلند کر دیا ہے"
14 مارچ کو میں اس وقت Uber میں نشاط کالونی سے واپس گڑھی شاہو آرہا تھا جب معلوم پڑا کہ حکومت نے کرونا وائرس کے پیش نظر لاک ڈاون کا فیصلہ کیا ہے اور تمام تعلیمی ادارے اور ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی ہے تاحکم ثانی. پہلا خطاب پہلی دفع تھا اس لیے اچھا تھا لیکن دوسرے یا تیسرے خطاب میں تقریبا وہی باتیں کچھ اضافے کے ساتھ جگہ بدل کر کی گئیں تھیں تو گزارا ہوا لیکن لاک ڈاون کے باعث غریب بھوک کے مارے اب سڑک پہ آنے کو مجبور تھے. فلاحی اداروں کو لوگ فون کر کے جو حالات بتاتے تو یوں لگتا کہ پہلے اسے پانی پلاؤ کہیں یہ نا مر جائے اور خوف یہ بھی تھا کہ اگر اس کی طرف گئے وہ ہمت ہار گیا تو واپس لوٹنے تک یہاں بھی کچھ نہیں بچے گا.
چوتھی تقریر سننے کے لیے بھی اندر کے انسان سے ضد کی مگر اس اکاؤنٹ نمبر ملا اور فورس بنانے کا عندیہ دیکر صاحب اقتدار رخصت ہوئے اب ناجانے فورس کب تک بنے گی، پھر اس فورس کی حکمت عملی کب آئے گی اور یہ کب کام شروع کرے گی.
ویسے ہمارے ملک میں اب تک کرونا مریضوں کی تعداد تقریبا 2000 ہے مگر بھوک کے ہاتھوں دوچار کروڑوں لوگ ہیں. المیہ یہ ہے کہ اس دور میں مسلم بستی سے اٹھنے والے جنازوں کے صفحوں میں بھی صرف چند افراد ہوتے ہیں جو میت کو دفنا کر سکھ کا سانس لینے پہ مجبور ہیں.
"بقاہِ شہر اب شہر کے اجڑنے میں ہے"

بشکریہ اردو کالمز