575

مدارس سے دینی مدارس کا سفر (پہلی قسط) 

تعلیم نظریات یا عقائد کی ترویج کا ایک اہم ذریعہ ہے. تعلیم کی مدد سے کسی بھی ذہن کو با آسانی کسی بھی مقصد کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے اور اگر یہ تعلیمی عمل کسی بھی فرد کے بچپن سے شروع کر دیا جائے تو وہ بچہ بڑا ہو کر کسی بھی نظریے کے تحفظ کیلئے ایک فولادی دیوار بھی ثابت ہو سکتا ہے. جہاں اللہ رب العزت نے پہلی وحی میں علم کے حصول کی تعلیم دی وہیں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ایک صحابی حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر میں ایک تعلیمی ادارے کا قیام بھی عمل میں لایا، جہاں آپ صل اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے.

بعد ازاں جب آپ صل اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور کفار سے جنگی میدانوں میں سامنا ہونا شروع ہوا تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں کامیابی کے بعد غزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کیلئے یہ شرط رکھی کہ ان میں سے ہر ایک کم از کم دس مسلم بچوں کو تعلیم کی زیور سے مالا مال کرے گا تو رہائی پائے گا تو دوسری جانب مدینے میں مسجد نبوی سے متصل ایک چبوترے کو اصحاب صفہ کے نام سے موسوم کیا گیا اور صحابہ جہاں علم حصول علم میں ہر وقت مگن رہتے تھے.

جہاں آغاز اسلام میں مسجد کو ریاستی ادارے کی اہمیت حاصل تھی اور کئی ریاستی امور اسی میں طے پاتے تھے وہیں تعلیم و تعلم کا کا کام بھی مسجد میں ہی سر انجام پاتا تھا. علیحدہ سے مدارس بنانے کا کوئی تصور نا تھا اور مساجد کو ابتدائی مدارس کا درجہ حاصل تھا. نصاب میں زیادہ تر قرآن پاک حفظ کروایا جاتا تھا، بعض جگہوں پر حفظ کا دورانیہ تین سال متعین کیا جاتا تھا اور کہیں بغیر دورانیے کے تعلیمی عمل جاری رہتا. ساتھ ہی ساتھ بچوں کو تختیوں پر عربی اشعار لکھنے کی مشق کروائی جاتی تھی اور ادبی تقاضوں کے پیش نظر آغاز میں قرآنی آیات لکھوانے سے گریز کیا جاتا تھا. بعض جگہوں پر قرآن مجید کے علاوہ قواعد، حساب اور عربی اشعار کی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور بعض مالدار والدین اپنے بچوں کی آسانی کیلئے اتالیق مقرر کر لیتے تھے، جو ان کے بچوں کو گھر آ کر تعلیم کی دولت سے نوازتے تھے.

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابتدائی مدارس کی طرز پہ ثانوی مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں بچوں کو قرآن، کتابت، عربی ادب اور حساب کی بنیادی تعلیم کے بعد تفسیر اور فقہ کی تعلیم دی جاتی اور کچھ اساتذہ طلباء کو گھر پر ان یونانی علوم کی تعلیم دیتے جن کا ترجمہ خلیفہ المامون کے 820 عیسوی میں قائم کردہ بیت الحکمت میں کیا جاتا تھا. سلجوقی ترکوں کے وزیر نظام الملک نے پہلا سرکاری ثانوی مدرسے کا قیام 1066 عیسوی میں عمل میں لایا، جس کا نام نظامیہ بغداد تھا. اس ادارے کے نصاب میں حفظ قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ، عربی شاعری، ادب اور قواعد شامل تھے.

عثمانی ترکوں کے زمانے تک مدارس ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ، تین درجات میں تقسیم ہو چکے تھے. حسب دستور ابتدائی مدارس مسجد کا ہی حصہ تھے جہاں حفظ قرآن ، لکھنے، پڑھنے، قواعد حساب اور شاعری کی تعلیم دی جاتی تھی. وزیر نظام الملک نے ثانوی مدارس کو علیحدہ عمارت میں منتقل کر دیا تھا اور بعد ازاں صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی نے اس مہم کو آگے بڑھایا. رفتہ رفتہ علم ہندسہ، منطق، فلسفہ اور ہیئت کے یونانی علوم کو ثانوی مدارس کے نظام کا حصہ بنایا گیا. جو اس سے قبل صرف، نحو، لسانیات، علم المعانی اور عربی ادب پر مشتمل تھا. اور اعلی مدارس میں قرآن و حدیث اے متعلق تمام علوم بشمول تفسیر، فقہ، علم الکلام اور علم الفرائض کی تعلیم دی جاتی تھی. اسپین میں تعلیم ایک نجی معاملہ تھا اور نصاب میں کم و بیش وہی تمام چیزیں شامل تھیں جو باقی اسلامی ممالک کے مدارس میں رائج تھیں. جن میں تعلیم قرآن، حدیث، فقہ، علم ہندسہ، منطق، فلسفہ، حساب، عربی قواعد، ادب، علم العقائد اور علم ہیئت شامل تھے.

بشکریہ اردو کالمز