306

"کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو" 

مرزا غالب کے بازیچہ اطفال کا سب بڑا فسانہ زندگی ہے. جو اپنے آپ میں تو صرف سانس کے چلنے کا نام ہے، جو سانس رک جائے تو جمود، گویا انسان ٹھنڈا اور فسانہ ختم. مگر جہانِ رنگ و بو میں زندگی ایک تلخ حقیقت ہے جو معاشرے کے بنائے اصولوں پہ چلنے کا نام ہے، جو آپ چلنے میں ناکام ٹھہرے تو یعنی مقصدِ حیات کا جنازہ نکلا.

سکول کی دہلیز پہ پہلے قدم سے لیکر موت کو گلے لگا لینے تک اس دنیا میں یہاں کے بنائے سماجی ضابطوں کے عین مطابق جینا بھی موت ہے. جہاں آپ عقل و شعور کی رعنائیوں سے کوسوں دور حوس کے کڑوے جام ہر وقت اپنے ہاتھ میں تھامے رکھتے ہیں اور کوشش یا دوڑ میں شمولیت کو اہمیت دینے کے بجائے بس کامیابی کے راگ الاپتے ہیں اور یہ کبھی بھی طے نہیں کرتے کہ اگر کامیاب نا ہوئے تو پھر کیا کریں گے.

کامیابی کیا ہے؟ اور یہ سوال اپنے آپ یعنی "کامیابی کیا ہے" سے بھی ایک سوال ہے. آخر ہمارے وہ طالب علم جنھیں میٹرک کی تکمیل کے بعد آسانیوں کے قصیدے سنانے والے آگے بھی تعلیم جاری رکھنے کا کیوں کہتے ہیں. آخر ہم ایف اے، بی اے، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے بعد بھی کامیابی کے لیے کیوں کتابی کیڑا بنے رہتے ہیں، آخر لاکھوں، کروڑوں کا کاروبار ہماری حوس کو ختم کیوں نہیں کرتا، آخر ہماری منزل یا ہماری کامیابی کچھ دنوں کے بعد ہمارا ساتھ کیوں چھوڑ دیتی ہے، آخر ہم کیوں ساری زندگی اپنے آپ کی یا اپنے کردار کی تکمیل میں گزار دیتے ہیں.

استاد صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے یعنی جب تک بندے کو موت نہیں آتی انسان زندہ رہتا ہے لیکن  ہمارے اردگرد بستے افراد کی توقعات ہمارے لیے موت کے تصور کو بدل دیتی ہیں. ہمیں اپنی زندگی کا اختتام کسی بھی امتحان میں کامیاب نا ہونے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہم سے ہمیشہ کامیابی کی توقعات وابسطہ کی جاتی ہیں اور ہماری کوشش کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے.

ویسے کوشش کا صلہ دینا خدائی کام ہے یعنی خدا ہی وہ ہستی ہے جو انسان کی کوشش کا درست ادراک کر سکتی ہے اور انسان کو اس کا صلہ بھی دیتی ہے. انسان کے نزدیک کامیاب ہونا صلہ پانے کے لیے ضروری ہے. یعنی اگر آپ کامیاب ہو گئے تو ہر کوئی آپ کو اپنا کہے گا، لوگ آپ کے نام کے ساتھ اپنا نام لگائیں گے اور ہر صورت یہ ظاہر کریں گے کہ آپ کی کامیابی کی اصل وجہ یا سبب وہ ہیں لیکن اگر آپ نے کوشش کی اور کامیاب نا ہو پائے تو لوگ آپ کی برسوں کی کوشش کو اک نظر میں اٹھا کر اتنا دور پھینکیں گے کہ آپ کو آپ کی ذات سے نفرت شروع ہو جائے گی، آپ کا دل کرے گا کہ آپ اپنا آپ کچا چبا جائیں.

گزشتہ برس میں ایک اکیڈمی میں بطور انگریزی استاد خدمات سر انجام دے رہا تھا اور مجھے ہر ہفتے طلباء کے ٹیسٹ لینا اور چیک کرنا ہوتے تھے جو کہ میرے نزدیک صحیح طریقہ نا تھا. کچھ طلباء ادارے میں باقاعدہ پڑھنے کے بجائے صرف ٹیسٹ دینے آتے تھے تا کہ وہ اچھے نمبر لیکر اپنے گھر والوں کو یہ یقین دلا سکیں کہ وہ واقع ہی کامیاب ہو جائیں گے. ایک دن میرے سامنے ایک طالبہ کا لکھا ایک مضمون آیا، بیس نمبر کا مضمون جسے تین سو الفاظ پر مشتمل ہونا چاہیے تھا تقریبا پانچ سو الفاظ پر مشتمل تھا. جا بجا طالبہ نے مختلف اقوال اور تاریخی حوالے مضمون میں بیان کردہ رائے کے ثبوت کے لیے لکھے تھے. پورے مضمون میں مجھے دو جگہ اصلاح طلب چیزیں دکھیں، جنھیں میں نے سرخ قلم کی مدد سے واضح تو کیا لیکن اس پر نمبر نا کاٹا. دو دن بعد مجھے پرنسپل آفس آنے کو کہا گیا اور وہ پیپر مجھے تھما کر کہا گیا کہ اس طالبہ کے والدین کہہ رہے ہیں کہ آپ نے نمبر کیوں نہیں کاٹا، ہم چاہتے ہیں کہ آپ نمبر کاٹیں تاکہ ہماری بیٹی مزید محنت کرے. مجھے سب عجیب لگا کہ آخر اب کونسی محنت یہ لوگ چاہتے ہیں، آخر یہ کس دباؤ کا شکار ہیں، آخر انھیں ایسی کون سی پرفیکٹ کامیابی حاصل کرنی ہے جس کے بعد زندگی میں کوشش کا باب ختم ہو جائے گا اور سب کچھ اسے درجے پہ مل جائے گا.

اصل کامیابی اطمینان کا نام ہے جو کسی بھی درجے پر محنت کے بعد حاصل ہوتی ہے. ممکن ہے اگلے دن آپ کو مزید محنت کرنی پڑے اور پھر اس درجے پر اطمینان حاصل کرنا پڑے. لیکن ایک چیز جو ہمیشہ اہم رہے گی وہ محنت یا کوشش ہے کہ آپ کسی بھی درجے سے آگے بڑھنے کے لیے کتنی محنت کرتے ہیں اور اگر کسی درجے پہ آپ رک گئے یا محنت کرنا چھوڑ دی تو آگے کا سفر طے کرنا مشکل کیونکہ زندگی جہد مسلسل کا نام ہے.

یہ جہد مسلسل ہر شخص کو اپنی بساط میں رہ کر کرنی چاہیے اور اپنا کسی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو کسی قسم کے ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہونے دینا چاہیے. اور اگر کہیں ایسی صورت حال درپیش ہو تو تھوڑی دیر ٹھہر کر سانس لیں اور کسی سے باتوں میں اپنا وقت بتائیں. چہرے پہ سجی بناؤٹی مسکراہٹ کبھی بھی پریشانی کا حل نہیں ہوتی بلکہ اندر چھپی پریشانی کا اظہار یا کسی کی راہنمائی یقینا حل ہو سکتے ہیں. خواہشات اور خواب، ایک سکے کے دو رخ ہیں اور ان دونوں میں ہونے اور نا ہونے کا احتمال برابر ہوتا ہے، لیکن اپنی بساط کے مطابق کوشش اس سفر میں معاون ثابت ہو سکتی ہے. اور جون کے شعر کا مصرعہ اولی "بے حسی شرط ہے جینے کے لیے" کا فسانہ ہمیں احساس کی بیماری سے ختم کرنا ہو گا، وہی دکھانا ہو گا جو ہم ہیں اور اسی سے ہی ایک متوازن زندگی کا قیام ممکن ہے.

بشکریہ اردو کالمز