682

3 رمضان 2005 کی مانند، کرونا بھول جائے گا

میری عمر آٹھ برس تھی اور میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا. ہمارے گاؤں میں مدرسہ اور سکول ساتھ ساتھ تھے. ہم صبح سویرے پہلے مدرسے میں آکر قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے اور پھر ساتھ سکول میں عصری تعلیم حاصل کرنے میں سرگرم ہو جاتے. تیسری جماعت کا نصاب تین باقاعدہ کتابوں پر مشتمل تھا. اسلامیات، اردو اور ریاضی. انگریزی اس درجے کے طلباء کو باقاعدہ پڑھائی نہیں جاتی تھی مگر انگریزی حروف تہجی اور ہجاء سکھلانے پر تھوڑی بہت توجہ دی جاتی تھی.

ہم آج پھر حسب معمول صبح سویرے اٹھے، دادی جان کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کیا اور پھر مدرسے جانے کی تیاری کی لیکن سکول کا بستہ بھی ساتھ لے لیا. میں اپنے بڑے بھائی کی معیت میں سکول کے لیے روانہ ہوا، رستے میں کچھ دیگر دوست بھی ساتھ مل گئے اور مدرسے تک پہنچتے ہوئے ہم نے خوب گپ شپ کی. مدرسے داخل ہوئے تو معلوم پڑا کہ قاری صاحب ابھی تک نہیں آئے. قاری صاحب تعلیم کہ معاملے میں کافی سخت مزاخ تھے. گاؤں والوں کو ان کا یہ رویہ قبول تھا کیونکہ انھوں نے گاؤں کے تقریبا سارے بچوں کو قرآن کریم پڑھنا سکھا دیا تھا اور اب تو کچھ طلباء قرآن کریم حفظ کرنے میں بھی مشغول تھے.

اتنی دیر میں ایک آواز نے تمام طلباء کو خاموش کروا دیا. یہ آواز باہر کھڑے اس لڑکے کی تھی جو قاری صاحب کو آتا دیکھنے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا تا کہ وہ سب کو مطلع کر دے اور سب خاموش ہو جائیں، ورنہ قاری صاحب شور کرنے کی وجہ سے ساری طلباء کی خوب سرزش کرتے تھے.

قاری کے آنے پر تمام طلباء نے کھڑے ہو کر انھیں سلام کیا اور پھر قاری صاحب نے بیھٹتے ساتھ ہی طلباء سے باری باری سبق سننا شروع کیا. اتنی دیر میں ایک طالب علم ایک پیکٹ بسکٹ اور ایک گلاس پانی لے کر آیا اور قاری صاحب نے حسب معمول پانی میں بسکٹ ڈبو کر کھائے. نا جانے وہ ایسا کیوں کرتے تھے مگر ان کا اکثر معمول یہی ہوا کرتا تھا. اگر کسی جگہ کوئی طالب علم غلطی کرتا تو آپ بس گھنگھارتے جس سے سبق سنانے والے کو اندازہ ہو جاتا کہ اس سے کوئی خطا سرزد ہوئی اور وہ فورا توجہ سے سنانا شروع کر دیتا.
مدرسے کے وقت کے اختتام پہ حسب معلوم کچھ طلباء نے قصیدہ بردہ شریف با ادب کھڑے ہو کر پڑھا اور پھر قاری صاحب نے دعا فرمائی. بعد ازاں طلباء نے سکول کی راہ لی اور چند قدم کے فاصلے یہ واقع سکول میں داخل ہو گئے.

اسمبلی کا وقت ہو چکا تھا، تمام طلباء فورا سکول کی چھت پہ پہنچ گئے جہاں تمام اساتذہ پہلے سے موجود تھے. تمام طلباء نے حسب معمول اپنی جماعت کے لیے مقرر کردہ جگہ پہ لائن بنائی اور استاد صاحب نے لائنوں پر ایک نگاہ دوڑائی اور سامنے کھڑے طالب علم کو تلاوت شروع کرنے کا اشارہ کیا. تلاوت، پھر نعت اور آخر پر علامہ اقبال کی بچوں کے لیے لکھی گیی دعا سے اسمبلی کا اختتام ہوا اور تمام طلباء نے ایک طرف لائن سے کمرہ جماعت کی طرف جانا شروع کیا. سامنے کھڑے استاد نے سارے طلباء کی تختیوں کو چیک کیا جس پہ انھوں نے دیا جانے والا کام لکھا ہوا تھا.

تمام طلباء اور اساتذہ بھی کلاسوں میں موجود تھے اور کچھ طلباء استاد کے پاس جانے کی تیاری میں مصروف تھے کہ اچانک ایک عجیب آواز سننے میں آئی، ایسے آواز اب سے پہلے کبھی سننے میں نا آئی تھی. سب اپنے ہوش و حواس کھو چکے تھے. کچھ لمحوں بعد جب ہوش سنبھالا تو معلوم پڑا سکول کی عمارت اب محض ملبہ ہے. میں دوسرا یا شاید تیرا طالب علم تھا جو اس ملبے سے با حفاظت نکل پایا. آواز  ابھی باقی تھی لیکن ارگرد دیکھا تو معلوم پڑا تمام گھر گر چکے تھے اور ہر طرف چیخ و پکار تھی. سمجھ سے باہر تھا بندہ کہا جائے. ارگر پہاڑوں کے گرنے کی آوازیں کلیجہ منہ کو لا رہی تھیں. سکول کہ اکثر طلباء لا پتہ تھے. کچھ آگے بڑھ کہ دیکھا تو چند طلباء کی میتیں خون میں لت پت دکھائی دیں. مگر کسے اٹھایا جائے اور کسے چھوڑا جائے. کچھ دیر بعد اردگرد سے کافی لوگ سکول پہچے اور ان کے صبح سکول آنے والے بچے لا پتہ تھے. سب نے ملبہ ہٹا کر جنازے نکالنے شروع کیے شام تک سکول سے پچاس کے قریب جنازے نکل چکے تھے، زخمے ان گنت تھے. کچھ طلباء ابھی بھی لا پتہ تھے. پانی ختم ہو چکا تھا، کھانے کو فصلوں میں تیار مکئی کے سٹوں کے علاوہ کچھ نا تھا. مسجد جو علاقے میں نا گرنے والی واحد عمارت تھی، زخمیوں سے بھر گئی تھی. عید گاہ جہاں کچھ دنوں بعد سب نے عید کے لیے جمع ہونا تھا، ابھی جنازوں سے بھری ہوئی تھی. کچھ لوگ پہاڑوں میں کچلی لاشوں کی بوٹیاں چادروں میں اکٹھی کر کے لا رہے تھے. مگر کون اتنی قبریں کھودے، کون اتنی میتوں کا جنازہ پڑے، کون انھے دفنائے. زخمیوں کی آہ و بکا سے پرندے سہم چکے تھے. چشمے خشک تھے اور بچ جانے والے پانی کے ایک قطرے کو ترس رہے تھے. دودھ پیتے بچے اپنی ماؤں کی گود کو ترس گئے تھے جو اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو ٹاکیوں سے ڈھانپے میں مصروف تھیں. مسجد کے صحن میں پڑی لاشوں میں کئی چہرے اپنے دکھائی دیے مگر ان کے پاس ٹھہرنے کا حوصلہ نا ہوا.

کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ 5 اکتوبر 3 رمضان المبارک 2005 کو زلزلہ آئے گا اور اتنی جانیں لے جائے گا اور پوری بستیوں کو غم کے تاریک سائے میں دھکیل جائے گا. لوگ ہزاروں جنازے اٹھائیں گے اور وادیاں صدیوں تک اس قہر کی گواہ رہیں گی مگر انسان نے اسے بھلا دیا...

اے کرونا تو کیا ہے! ہم تجھے بھی بھلا دیں گے.

بشکریہ اردو کالمز