231

جمہوریت پر مرثیہ !

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سال نو کے موقع پر حکومتی قصیدہ لکھ کرصاحب اقتدار لوگوں کا منظور نظر ہو جاتا مگر میرے ضمیر اور قلم نے ساتھ نہیں دیا۔ جب تک میراضمیر اور قلم میرا ساتھ نہ دے میں لکھنے کی طاقت سے محروم رہتا ہوں۔ ملکی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے جب عوام کو جھوٹی تسلیاں دی جارہی ہیں ۔ ہم خود ناکام ہیں الزام دوسروں پر لگا کر بری الذمہ ہونے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ آج کل ملک میں جمہوری نظام پر پھر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے جمہوریت کو کوس رہے ہیں۔ سال نو کا پہلا نثری مرثیہ تحریر کر رہا ہوں۔ میرے مرثیے کاعنوان جمہوریت ہے ہم نے جمہوریت کے نام پر میرے ملک کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا کہ سیاست اور عوام جمہوریت سے منہ چھپا رہے ہیں ۔ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ پھر ملک کو اِس حالت پر پہنچانے والوں کی ڈھٹائی دیکھو وہ ملک کو مزید تباہ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے عوام کی بجائے اپناسوچا اِن سیاسی جماعتوں کی کارکردگی دیکھ کر تبرّاکرنے کو دل کرتا ہے ہم دعوے جمہوریت کے کرتے ہیں۔ مگر بنیادی طور پر آمرانہ سوچ کے حامل لوگ ہیں۔ میرے ملک کی سیاست کا حصہ بننے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں میںفیوڈل ازم کا عنصر پایا جاتا ہے بلکہ یہ جماعتیں اب لمٹیڈ کمپنیوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ پھردینی جماعتیں جو ذہنی طور پر جمہوری نظام کے خلاف ہیں با امر مجبوری نظام کاحصہ بنتی ہیں اور حکومت میں شامل ہو کر ذاتی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں ۔ پھرسیاسی جماعتوں کی حالت دیکھ لو کہیں جمہوریت نظر نہیں آتی۔ اب تو کچھ سیاسی جماعتوں میں موروثیت سرایت کرچکی ہے۔ شایدمیری باتیں کچھ جمہوریت کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی عقل سلیم پر گراں گزرے ان سے ہاتھ باندھ کر التماس ہے کہ اپنے اندر جمہوریت پیدا کریں اورحق سننے کا حوصلہ پیدا کریں۔ 
نکل کے تخت پے آتا ہے راج لوگوں سے 
جو چل رہا ہے ترا سامراج لوگوں سے 
میں حق پرست ہوں حرمل سے میری بات نہیں
میری ہے گفتگو بس حُر مزاج لوگوں سے 
    آج کل میڈیااورسوشل میڈیا پر جمہوریت کی مخالفت اور صدارتی نظام کی حمایت میں صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ 73 سال سے پاکستان میں مختلف نظاموں کے تجربات کئے گئے۔ اہل دانش نے جمہوریت کو بہترین نظام تصور کیا۔ ملک اب تک مختلف نظاموں کی بہترین تجربہ گاہ رہی مگر شفافیت کے فقدان کی وجہ سے ہر نظام کامیاب نہیں ہوا۔ کوئی نظام بُرا نہیں ہوتا اگراِس نظام میں عوامی فلاح کا عنصر شامل ہو تو وہ بُرا نظام کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگر عمل درآمد میں شفافیت اورقانون نافذ کرنے والے مخلص نہ ہو تو اچھے سے اچھا نظام بھی ناکام ہو جاتا ۔ میرے ملک میں بدقسمتی سے تجربات تو بے شمار کئے گئے ۔ مگر قوانین پر عمل درآمد کرنے والے آئین سے غداری کرکے نظام کو ناکامی کی نذر کر دیتے ہیں۔ آج بھی ایک خاص طبقہ اورایک سیاسی جماعت ملک میں جاری نظام کو ڈی ریل کرکے صدارتی نظام مسلط کرنا چاہتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس سے قبل بھی کئی دفعہ صدارتی نظام لاگو کیا گیا۔ اس سے ملکی مسائل حل نہیں ہوئے۔ مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی۔بالفرض اگر صدارتی نظام آبھی جائے جس کادور دور تک کوئی امکان نہیں پھر بھی ملکی مسائل حل نہ ہوئے تو پھرکدھر جائیں گے۔ ملک میں موجودہ جمہوری نظام کی ناکامی کے ذمہ دار سیاست دان ، ادارے اور عوام ہیںمگر اس ناکامی کی گہرائی کی پیمائش کی بجائے ایک دوسرے پرالزام لگا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں اورحقیقت پوشیدہ ہی رہ جاتی ہے۔ اب قوم کو آئینہ دیکھانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے جمہوریت کی زمین پر جو بویا وہی کاٹ رہے ہیں۔ اب ضرور ت اِس امر کی ہے کہ ملک دشمن فصلوں کو مکمل طور پر تلف کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جمہوریت ہو یا کوئی اورنظام کامیاب نہیں ہوگا۔ میرے ملک کا وزیراعظم سابق حکمرانوں کی پیداکردہ ملک دشمن فصلوں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ جن سیاسی جماعتوں نے اِن فصلوں کو پروان چڑھایا ہے وہی لوگ اِن فصلوں کو تلف کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں۔ اِن فصلوں کے خاتمے کے لیے جمہوری نظام میںتبدیلیاں ناگزیر ہیں موجودہ نظام کوئی آسمانی صحیفہ تو نہیں ہے جسے تبدیل نہ کیا جاسکے ۔ چہرے بدلنے سے نظام نہیں بدلا کرتے اِس کے لیے قوم کو مشترکہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ وزیراعظم جمہوریت کے اندر رہ کر تبدیلی لائیں اس میں ملک کی بقاء ہے۔


 

بشکریہ اردو کالمز